Skip to content

The Ultimate Master Of Zehradis – Urdu Novel Stories – Episode 8

  • by

دی الٹی میٹ ماسٹر آف زہراڈس

سرگوشیوں کا راستہ

زیرِ زمین راستہ ریحان کے قدموں تلے جیسے سانس لے رہا تھا۔

ہوا بوجھل تھی، گویا صدیوں پرانے کسی راز کی سانسیں فضا میں تحلیل ہو رہی ہوں۔

ریحان آہستہ قدموں سے آگے بڑھتا رہا، ہر قدم ایک نیا سوال، ایک نئی آزمائش۔

اس کے گرد نیم اندھیرے میں، دیواروں پر پُراسرار نقوش ابھر رہے تھے،

جو اُسے کسی انجانی زبان میں خوش آمدید کہہ رہے تھے… یا شاید خبردار۔

چند لمحوں بعد، وہ ایک چمکتے ہوئے چبوترے تک پہنچا۔

زمین خودبخود نیلی روشنی سے جگمگا رہی تھی —

وہی روشنی جو ہمیشہ اس کی روح کے کسی گوشے کو چھو جاتی تھی۔

چبوترے کے بیچ ایک پتھر کی میز تھی،

مگر اس پر کچھ رکھا نہ تھا،

سوائے ایک سنہری دائرے کے،

جس کے اندر کندہ تھا:

“جو تم تلاش کر رہے ہو… تم اُسے نہیں، وہ تمہیں چنتا ہے۔”

ریحان نے گہری سانس لی،

جیسے دل نے کسی انجانے امکان کو محسوس کر لیا ہو۔

اُس نے آنکھیں بند کیں، اور دل میں ایک سوال ابھرا:

“تم کون ہو؟ اور کہاں ہو؟”

اگلے ہی لمحے، اُس کے گرد نیلا ہالہ بننے لگا۔

روشنی دھند میں بدل گئی، اور فضا میں ارتعاش پھیل گیا۔

زمین جیسے لرزنے لگی ہو،

اور وہ نیلی روشنی اُسے اپنی لپیٹ میں لے کر کہیں اور لے جانے لگی۔

چند لمحے بعد، جب اُس نے آنکھیں کھولیں —

وہ ایک نئی جگہ پر موجود تھا۔

یہ ایک کھلا، روشن غار تھا۔

سامنے — ایک تنہا، نایاب، اور چمکتا ہوا پھول —

شفاف، نور سے لبریز، اور خاموشی میں ایک لطیف موسیقی جیسی کیفیت لیے۔

ریحان کی روح نے فورا پہچان لیا —

یہی زارا کا علاج ہے۔ یہی وہ شے ہے، جس کی تلاش تھی۔

مگر جیسے ہی اُس نے قدم بڑھایا،

پھول کے گرد زمین سے ایک سایہ اُبھر آیا۔

وہ مکمل تاریکی سے بنا تھا — جیسے روشنی کو بھی نگل سکتا ہو۔

سایہ بولا،

“ہر شے قیمت مانگتی ہے…

تم اس کے قریب جا سکتے ہو —

مگر کیا تم دینے کے لیے تیار ہو؟”

ریحان کی آنکھوں میں ایک چمک ابھری۔

دل میں زارا کی بےحس حالت کا عکس لہرایا۔

اُس نے ایک لمحے کو سوچا… پھر قدم بڑھاتے ہوئے کہا:

“میں کچھ بھی دوں گا…

مگر زارا کو بچاؤں گا!”

اندروُنی جنگ کا دروازہ

ریحان کے الفاظ خاموش فضا میں جذب ہو گئے —

جیسے کائنات نے اُس کے عزم کو سن تو لیا ہو، مگر قبولیت کا دروازہ ابھی بند ہو۔

سایہ، جو پھول کے گرد چکر لگا رہا تھا، ایک لمحے کو ٹھہرا۔

پھر اس کی آواز ابھری —

اس بار دھیمی، گہری اور بےچین:

“یاد رکھو… تم نے کہا تھا تم کچھ بھی دو گے۔

مگر کبھی کبھی جو چیز تم دیتے ہو، وہ تمہارے اختیار سے باہر ہوتی ہے۔

پھر بھی… آگے بڑھنا چاہو گے؟”

ریحان نے بنا کوئی جواب دیے، عصا زمین پر ٹکایا،

اور اپنی آنکھیں بند کر کے سانس روکی —

دل کی دھڑکن کو پرسکون کیا۔

پھول کی روشنی اب تیز ہو گئی تھی،

مگر وہی سایہ، آہستہ آہستہ دھند میں تحلیل ہونے لگا۔

جیسے اُس کی موجودگی نے اب جگہ کسی اور شے کو دے دی ہو۔

اچانک زمین لرزنے لگی،

اور پتھروں سے بنے ستون اُس کے گرد اٹھنے لگے۔

ہر ستون سے ایک الگ آواز گونجی —

کبھی آشنا، کبھی اجنبی:

“تمہارا خوف؟

تمہاری کمزوریاں؟

تمہاری یادیں؟

کیا تم واقعی خود کو چھوڑ سکتے ہو؟”

ریحان اپنی جگہ ساکت کھڑا رہا،

مگر اُس کی آنکھوں میں وہ لمحہ دوڑ گیا —

وہ لمحہ جب اُس نے خود کو بےبس محسوس کیا تھا…

جب زارا اُس کے سامنے بےجان پڑی تھی اور وہ کچھ نہیں کر سکا۔

ایک ستون سے نکلنے والی روشنی سیدھی اُس کے سینے سے ٹکرائی۔

وہ لرز گیا، مگر گرایا نہیں۔

بس ایک قدم اور پیچھے ہٹا،

اور پھر مضبوطی سے زمین پر جم گیا۔

سایہ کی بازگشت دوبارہ گونجی:

“اگر یہ قیمت ہے… تو ادا کرو۔

اس مقام سے صرف وہی گزر سکتے ہیں جو اپنی کمزوریوں کو پیچھے چھوڑ دیں۔”

ریحان نے آہستگی سے سر اٹھایا،

اور دھیمے مگر پرعزم لہجے میں بولا:

“میں اپنا کمزور ماضی چھوڑتا ہوں۔

میں وہی بنوں گا… جو زارا کو بچا سکتا ہے۔”

پھر ستون ہلنے لگے،

روشنی ایک جھٹکے سے تیز ہوئی،

اور لمحہ بھر میں… ہر شے خاموش ہو گئی۔

پھول اب اپنی جگہ سے جھک چکا تھا —

جیسے اُس نے ریحان کو قبول کر لیا ہو۔

ریحان نے نرمی سے ہاتھ بڑھایا،

اور پھول کو اپنی ہتھیلی پر رکھا۔

ایک لطیف روشنی اُس کے وجود میں اُترنے لگی —

شفا کی روشنی، مگر ساتھ ہی ایک خاموش یاد دہانی:

“یہ صرف پہلی قیمت ہے…

اصل آزمائش ابھی باقی ہے۔”

واپسی کی راہ اور خاموش نگرانی

ریحان نے پھول کو آہستگی سے اپنے تھیلے میں محفوظ کیا۔

روشنی، جو اُس کے وجود میں اُتری تھی، اب دھیرے دھیرے دم توڑ رہی تھی —

مگر دل کی گہرائی میں ایک نیا یقین جگا چکی تھی۔

فضا اب پہلے جیسی نہ تھی۔

نہ وہ لرزش، نہ وہ بوجھ —

بلکہ جیسے زمین نے اُس کے فیصلے کو تسلیم کر لیا ہو۔

مگر ریحان جانتا تھا…

یہ مکمل سکون نہیں — یہ صرف وہ خاموشی ہے جو طوفان سے پہلے چھا جاتی ہے۔

اس نے نیچے بنے راستے سے واپسی کا رُخ کیا۔

اسی تنگ، پتھریلے راستے سے گزر کر،

جس پر چل کر وہ آیا تھا۔

راستے میں ایک جگہ وہ رکا،

جہاں دیوار پر ایک نیا نشان ابھر آیا تھا —

جو پہلے موجود نہیں تھا۔

کسی پرانی، گہری زبان میں لکھا ایک جملہ:

“اگر تم روشنی کو چنتے ہو،

تو سایہ تمہیں خود چنتا ہے۔”

ریحان نے ایک لمحے کو وہ الفاظ پڑھے،

پھر چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ آئی —

“میں تیار ہوں۔”

بس اتنا کہا اور آگے بڑھ گیا۔

مگر جیسے ہی وہ غار سے باہر نکلنے کے قریب پہنچا،

اُس کے پیچھے کوئی حرکت ہوئی۔

نہ آواز، نہ سایہ —

بس ہوا کا رخ بدلا، جیسے کسی نے سانس لی ہو۔

ریحان نے پیچھے مُڑ کر دیکھا،

مگر وہاں کچھ نہ تھا۔

پھر، ایک دور ستون کی اوٹ میں…

کسی کی آنکھ چمکی —

کسی نے اُسے واپسی کی راہ پر دیکھ لیا تھا۔

خاموش دشمن، چھپی ہوئی گھات

ریحان تاریک غار سے نکل چکا تھا۔

پہاڑوں کی فضا اب قدرے روشن ہو رہی تھی،

مگر وہ روشنی، جو دن کی نوید ہو، ابھی دور تھی۔

وہ پہاڑی راستے سے نیچے اتر رہا تھا،

قدم تیز، سانسیں گہری —

اور دل میں ایک ہی دُھن:

زارا کو وقت پر پہنچانا ہے۔

مگر فضا کی خاموشی…

کچھ زیادہ خاموش لگنے لگی تھی۔

ہوا میں عجیب سی بو…

پتوں کی سرسراہٹ میں جیسے کوئی اور سانس چھپی ہو۔

اسی لمحے، ایک پتھر اُس کے بائیں جانب سے لڑکھڑایا۔

ریحان فوراً رُکا۔

نظریں اِدھر اُدھر دوڑائیں،

عصا ہاتھ میں مضبوطی سے تھام لیا۔

مگر وہاں کچھ نہ تھا —

نہ سایہ، نہ حرکت۔

صرف سکوت… جو دل کے اندر اترتا چلا جائے۔

مگر اُسے معلوم نہیں تھا کہ کچھ فاصلے پر —

پہاڑ کے اوپر، ایک درخت کی آڑ میں

تین سائے چھپے بیٹھے تھے۔

یہ انسان نہ تھے…

بلکہ اندھیری مخلوقیں تھیں —

دشمن سلطنت کے جادوگروں کی تیار کردہ

خاموش قاتل۔

ان میں سے ایک نے سرگوشی کی:

“یہی ہے…

جس نے اُس روشنی کو چھوا ہے۔

اب ہمیں اُس کی کمزوری کا انتظار ہے۔”

“اور جب وہ کوئی غلطی کرے گا…

تب ہم وار کریں گے۔”

ریحان کو ابھی صرف احساس ہوا تھا۔

ثبوت نہیں،

بس وہ چھٹی حس،

جو ہر عظیم جنگجو کو زندہ رکھتی ہے۔

اس نے عصا کو ہلکا سا زمین پر مارا،

اور آسمان کی طرف دیکھا:

“جو بھی ہو… اگر تم آ ہی چکے ہو…

تو تیار رہو۔ میں رکنے والا نہیں!”

پھر اُس نے اپنی رفتار تیز کر دی،

مگر دل میں ایک الجھن تھی —

کسی نے اُسے گھیر لیا ہے…

مگر وہ کون ہے؟

اور وہ کب وار کرے گا؟

آخری موڑ سے پہلے

ریحان اب جنگل کے اُس کنارے پر پہنچ چکا تھا،

جہاں سے سیدھا راستہ شہر کی طرف جاتا تھا —

وہی شہر جہاں زارا بے ہوش، زندگی کی ڈور سے جُڑی صرف ایک امید پر قائم تھی۔

ریحان کا چہرہ تھکن سے بھر چکا تھا۔

یہ تھکن صرف جسمانی نہ تھی —

بلکہ اُن جذبات، خوف، اور اندرونی جنگوں کا بوجھ تھا

جو اُس کے دل و دماغ پر حاوی تھے۔

وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھا،

اپنے تھیلے کو چیک کیا —

جہاں وہ نایاب پھول محفوظ تھا۔

پھول اب بھی اپنی روشنی میں مدھم سانسیں لے رہا تھا،

جیسے وقت کی رفتار اُس پر بھی اثر انداز ہو رہی ہو۔

“بس تھوڑا اور…

زارا، میں آ رہا ہوں،”

ریحان نے دل میں دُہرایا۔

مگر اُسے معلوم نہیں تھا

کہ اُسی لمحے، اُس کے عقب میں

وہی تین سایہ دار مخلوقیں

آخری موقعے کی تیاری میں مصروف تھیں۔

سب سے خاموش سایہ آگے بڑھا،

مگر اُس کے ساتھی نے اُسے روکا:

“ابھی نہیں۔

وہ ابھی ہوشیار ہے…

ہمیں اُسے چلتے رہنے دینا ہے…

تاکہ جب وہ تھکے،

تب ہم وار کریں۔”

ریحان نے فضا میں ایک بےنام سی لرزش محسوس کی۔

آنکھیں بند کر کے اُس توانائی کو محسوس کرنے کی کوشش کی

جو اب تک اُس کے سفر کی رہنما تھی۔

مگر حیرانی ہوئی…

پھول کی روشنی پہلے جیسی نہ تھی —

مدھم…

دھڑکن کی طرح سست۔

“کیا یہ میری حد ہے…

یا کوئی چیز مجھے روک رہی ہے؟”

اسی لمحے، اُس کی نظر آسمان پر پڑی —

ایک کالا پرندہ اُوپر دائرے میں چکر کاٹ رہا تھا۔

کوئی عام پرندہ نہیں —

اس کے پروں میں دھواں تھا، آنکھوں میں لالی،

اور حرکات میں ناپیدا تاثرات۔

ریحان نے لمحے بھر کو نظریں ٹکائیں،

پھر نظریں ہٹا کر زمین پر دیکھا،

اور خود سے کہا:

“یہ وقت نہیں ہے رکنے کا۔

جو بھی ہو… مجھے زارا تک پہنچنا ہے۔”

وہ اٹھا، تھیلا مضبوطی سے کمر سے باندھا،

اور قدموں کو دوبارہ سفر پر ڈال دیا —

ایک ایسی راہ پر…

جہاں اب سایہ، وقت، اور طاقت

تینوں اُس کے حریف تھے۔

خاموشی کی لکیر

ریحان اب شہر کے کنارے تک پہنچ چکا تھا۔

وہی راستہ، وہی مٹی…

جس سے جُڑے کئی سوال، کئی یادیں

اور اب… ایک نئی ذمہ داری۔

درخت چھٹنے لگے تھے اور زمین کی خوشبو بدل گئی تھی۔

یہ خوشبو شہر کی تھی — زارا کی،

اس کی پہلی محبت کی۔

ریحان کچھ لمحوں کے لیے رُکا۔

سامنے وہی پرانا ستون تھا جو سرحد کی نشانی تھا۔

وہاں کچھ نہیں بدلا تھا…

مگر ریحان بدل چکا تھا۔

اس نے آہستہ سے ستون کو چھوا،

جیسے کسی اپنے کو سلام کر رہا ہو۔

“میں واپس آ گیا ہوں…”

دل میں یہ الفاظ گونجے۔

اُسی لمحے، زمین پر ایک نرم سی روشنی ابھری،

جس میں ایک دائرہ بنا،

اور درمیان میں لکھا تھا:

“واپسی صرف اُسے نصیب ہے

جو سچائی کے ساتھ لوٹے۔”

ریحان خاموشی سے مسکرایا۔

نہ غرور تھا، نہ خوف —

بس ایک سکون، ایک یقین۔

“میں زارا کے لیے لوٹا ہوں…

اور میں وقت پر پہنچوں گا۔”

وہ دائرے سے گزرا،

روشنی مدھم ہوئی اور پھر مٹی میں جذب ہو گئی۔

ریحان اب شہر کی حدود میں داخل ہو چکا تھا۔

مگر بہت دور…

ایک چھت پر کھڑا ایک شخص

دوربین سے اُسے دیکھ رہا تھا۔

اُس کی آنکھیں دوربین سے ریحان کو دیکھ رہی تھیں،

مگر ذہن میں کئی منصوبے چل رہے تھے۔

خاموشی کے پردے میں زارا کی پکار

محل کی فضا خاموش تھی۔

نہ خادموں کی آواز، نہ قدموں کی چاپ —

بس خاموشی، جو دیواروں سے لپٹی، سانس لیتی محسوس ہو رہی تھی۔

زارا کے کمرے میں ہلکی سی روشنی جل رہی تھی۔

وہ روشنی… جو صرف اس لیے باقی تھی

تاکہ کوئی امید، مکمل اندھیرے میں نہ کھو جائے۔

بستر پر زارا بےحس پڑی تھی۔

چہرے پر سکون تھا،

مگر آنکھوں کے گرد ایک عجیب سی سختی —

جیسے وہ اندر ہی اندر کسی جنگ میں مصروف ہو۔

کمرے کے کونے میں ایک خدمتگار خاموشی سے بیٹھا تھا،

جس کے ہاتھ میں ریحان کا دیا ہوا چھوٹا سا چمکتا ہوا ٹوکن تھا۔

اُسے حکم تھا کہ اگر کچھ بھی غیر معمولی ہو،

تو اُسے دبائے —

تاکہ ریحان جہاں بھی ہو، خبردار ہو جائے۔

اچانک، زارا کی انگلی ہلکی سی لرزی۔

خدمتگار فوراً چوکس ہوا۔

مگر اگلے لمحے… وہ حرکت رک گئی۔

“کیا یہ…؟” اُس نے دل میں سوچا،

مگر ٹوکن دبانے سے رُک گیا —

کیونکہ سب کچھ پھر سے خاموش ہو چکا تھا۔

کمرے کی فضا میں ایک ہلکا سا بدلاؤ آیا۔

ایسا لگا جیسے زارا کی سانس میں ایک نرمی،

ایک نئی تھکن شامل ہو گئی ہو۔

زارا کے دل کی دھڑکن کچھ لمحوں کے لیے تیز ہوئی —

پھر واپس مدھم ہو گئی۔

“ریحان…”

ایک بہت دھیمی سرگوشی اُس کے لبوں سے نکلی،

اتنی دھیمی کہ سننے کے لیے

دل کا کان درکار ہوتا۔

خدمتگار نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا،

پھر خاموشی سے دروازے کی طرف بڑھا

کہ شاید حکیم کو بلایا جائے۔

مگر اُس نے ایک آخری بار پلٹ کر دیکھا —

زارا اب بھی خاموش تھی،

لیکن اُس کے چہرے پر ہلکی سی نمی تھی —

ایک آنسو… جو شاید کسی خواب میں گرا تھا۔

فاصلے، دھڑکن اور واپسی

شہر کی گلیوں پر دھوپ اُتر چکی تھی۔

ریحان کے قدم تیز تھے،

مگر دل کی دھڑکن اس سے بھی آگے دوڑ رہی تھی۔

جیسے جسم کا نہیں، دل کا سفر چل رہا ہو۔

اب محل کی دیواریں سامنے آ چکی تھیں۔

وہی در و دیوار، جنہیں چھوڑ کر ریحان گیا تھا —

ایک سوال لیے… اور اب وہی سوال،

ایک جواب بن کر لوٹ رہا تھا۔

اُس نے ایک لمحے کو رک کر سانس لی،

پھر اپنا ہاتھ آہستہ سے دروازے کی جانب بلند کیا۔

جیسے وہ کچھ محسوس کر رہا ہو،

جیسے اُس کا وجود ہی اب دروازے کو اجازت دے رہا ہو۔

اُس کے ہاتھ کے اشارے سے

محل کا بڑا دروازہ خودبخود کھلنے لگا —

نہ کوئی آواز،

نہ کوئی اعلان —

بس احترام اور سکوت۔

ریحان نے اندر قدم رکھا۔

محل کی فضا میں خفیف سی خوشبو تھی —

وہی جو زارا کی موجودگی سے جڑی تھی۔

دیواروں پر روشنی کی پرچھائیاں ناچ رہی تھیں،

اور وقت جیسے رک سا گیا تھا۔

اُس کی سمت میں ایک نرم سی آواز ابھری:

“بی بی کی حالت جوں کی توں ہے…

مگر اُس نے رات… آپ کا نام پکارا تھا۔”

ریحان لمحے بھر کو ساکت ہو گیا۔

نہ آنکھیں جھپکیں، نہ سانس بدلی —

بس دل نے ایک سرگوشی کی:

“میں آ گیا ہوں… زارا…”

پھر اُس نے خاموشی سے قدم آگے بڑھا دیے،

جیسے ہر قدم ایک وعدے کی تکمیل ہو۔

لمسِ شفا

ریحان آہستہ آہستہ زارا کے کمرے کی طرف بڑھا۔

محل کے راہداریوں میں ایک عجیب سی خاموشی تھی —

نہ کوئی آہٹ، نہ کوئی سانس…

بس دیواروں پر وقت کی نظریں تھیں، جو اُسے گزرتے دیکھ رہی تھیں۔

جب وہ کمرے کے دروازے تک پہنچا،

اُس نے ایک لمحہ رُک کر گہری سانس لی۔

اُس کے دل میں خوف نہیں تھا…

بس ایک بےقراری تھی —

کہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔

دروازہ آہستہ سے کھلا۔

کمرے میں نیم اندھیرا تھا،

بس ایک گوشے میں جلتا ہُوا دیا،

جو امید کی طرح دھیمی روشنی پھیلا رہا تھا۔

زارا بستر پر ساکت لیٹی تھی۔

چہرہ تھکا ہُوا، مگر حسین…

جیسے نیند میں بھی اُس کی عظمت جھلک رہی ہو۔

ریحان دھیرے سے اُس کے قریب آیا۔

ہاتھ میں موجود شفا بخش پھول اب بھی روشنی سے دھڑک رہا تھا۔

اُس نے تھیلا کھولا،

پھول کو نکالا —

اور وہ لمحہ…

جیسے فضا نے سانس روک لی ہو۔

پھول کو زارا کے سینے کے قریب رکھا۔

اُس کی روشنی آہستہ آہستہ زارا کے جسم میں جذب ہونے لگی —

نہ کوئی چمک، نہ آواز…

بس ایک نور،

جیسے محبت کا لمس ہو۔

ریحان خاموشی سے بیٹھا رہا۔

اُس کے لب حرکت نہیں کر رہے تھے،

مگر اُس کی آنکھوں میں دعا تھی —

اور دل میں ایک التجا:

“تم ٹھیک ہو جاؤ زارا…

تمہیں میری ضرورت ہے،

اور مجھے… تمہاری۔”

چند لمحے گزرے۔

پھر اچانک، زارا کی پلکوں میں جنبش ہوئی۔

ایک ہلکی سانس اُس کے ہونٹوں سے نکلی،

اور اُس کا ہاتھ آہستہ سے حرکت کرنے لگا۔

ریحان چونک کر آگے جھکا۔

زارا کی آنکھیں آہستہ آہستہ کھلنے لگیں۔

ایک دھیمی سی سرگوشی اُس کے لبوں پر ابھری:

“ریحان…؟”

ریحان کی آنکھوں میں نمی چمکنے لگی،

اور اُس نے آہستگی سے زارا کا ہاتھ تھاما۔

“ہاں زارا…

میں واپس آ گیا ہوں۔”

نبضِ خاموش، خطرے کی آہٹ

زارا کی آنکھوں میں زندگی کی چمک لوٹ آئی تھی،

مگر اُس کا جسم اب بھی کمزور تھا —

جیسے خوابیدہ چراغ جو روشنی تو دے رہا ہو،

مگر ہوا کا ایک جھونکا بھی اُسے بجھا سکتا ہو۔

ریحان خاموشی سے اُس کے پاس بیٹھا رہا،

اُس کے چہرے کو دیکھتا، رہا

اور اُس نایاب پھول کی روشنی کو محسوس کرتا رہا

جو زارا کے سینے پر اب بھی دھیرے دھیرے اُتر رہی تھی۔

اچانک محل کے باہر سے دوڑتے قدموں کی آواز آئی۔

دروازہ کھلا، اور ایک خدمتگار تیزی سے اندر آیا:

“حضور… شہر کے دروازوں پر کچھ اجنبی نمودار ہوئے ہیں۔

نہ اُنہوں نے کچھ کہا، نہ کوئی اشارہ دیا —

بس خاموش کھڑے ہیں،

ریحان فوراً اُٹھ کھڑا ہوا۔

اب اُس کی آنکھوں میں سکون کی جگہ ایک خاص تناؤ آ چکا تھا —

جیسے اُسے معلوم ہو گیا ہو

کہ لڑائی کا دوسرا دور شروع ہونے والا ہے۔

اُس نے زارا کے چہرے پر ہاتھ رکھا،

پھر آہستہ سے خدمتگار کی طرف مڑا:

“زارا اور پھول کا خیال رکھنا،

اور یہاں کوئی نہ آئے —

جب تک میں واپس نہ آؤں۔”

پھر اُس نے آخری بار زارا کو دیکھا،

نرمی سے پلٹا

اور محل کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

باہر کی فضا سنّاٹے سے لبریز تھی۔

دور کچھ اجنبی وجود کھڑے تھے —

ساکت، گہرے، اور خطرناک خاموشی میں لپٹے ہوئے۔

ریحان کی نظر اُن پر پڑی،

اور اُس کے دل نے دھیرے سے کہا:

“یہ صرف خاموشی نہیں…

🛡️ کیا ریحان وقت پر آگے بڑھ پائے گا؟

کیا زارا واقعی محفوظ ہے؟

اور کیا دشمن کی اگلی چال سامنے آنے والی ہے؟

اس قسط میں بس اتنا ہی۔

Previous Episode Next Episode

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *