Skip to content

The Ultimate Master Of Zehradis Urdu Version

  • by

پانچویں قسط


عنوان: نیا امتحان اور چھپے راز
خاموش رات، الجھا ہوا دل

رات کی تاریکی نے محل کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا۔ میناروں پر لٹکتی مشعلیں مدھم روشنی میں لرزتی تھیں، جیسے کسی ان دیکھی فکر کو بیان کر رہی ہوں۔ زارا اپنی خواب گاہ میں اکیلی بیٹھی تھی۔ کمرے میں خاموشی تھی، مگر اس کے ذہن میں خیالات کا شور تھا۔ سامنے کھلی کتابیں، حسابات سے بھرے رجسٹر، اور معاہدوں کی فائلیں رکھی تھیں، مگر آج اس کی توجہ ان پر نہیں تھی۔

اس کا دل بے چینی سے بھر گیا تھا۔ پچھلے کچھ ہفتے عجیب گزرے تھے۔ اس کے کاروبار پر حملے، معاہدوں کی منسوخی، اور پھر… جیسے کوئی چھپا ہوا محافظ اسے ہر بار بچا لیتا۔ زارا نے زندگی بھر عقل، حکمت اور منافع پر یقین رکھا تھا، لیکن اب دل کے کسی کونے میں عجیب سا سوال جاگا تھا۔

“آخر یہ سب کون کر رہا ہے؟ کون ہے جو مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے؟ اور… کون ہے جو مجھے بچا رہا ہے؟”

اس نے آنکھیں بند کیں اور کچھ لمحے خاموشی سے گزر گئے۔ اچانک، اس کے ذہن میں ریحان کا خیال آیا۔ وہ اکثر باغ میں خاموشی سے چہل قدمی کرتا، اس کی نظریں سوچ میں ڈوبی ہوتیں، جیسے کوئی بہت بڑا راز چھپا رہا ہو۔ وہ شخص جسے وہ ہمیشہ سست، نکما اور غیر سنجیدہ سمجھتی رہی… کیا وہ واقعی اتنا عام تھا؟

“نہیں، یہ ممکن نہیں…” زارا نے خود سے کہا۔ “ریحان کچھ بھی نہیں جانتا، وہ تو محل سے باہر نکلا ہی نہیں، اسے کیا معلوم سلطنت کی سیاست کیا ہے؟”

مگر دل تھا کہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے غیر ارادی طور پر کھڑکی سے باہر جھانکا۔ نیچے محل کا باغ تھا، خاموش اور تاریک۔ ریحان وہاں نہیں تھا۔ زارا کے دل میں ایک چبھن سی اٹھی۔

“کہاں چلا گیا ہے وہ؟ اتنے دنوں سے خاموش ہے… اور اب… غائب؟”

اس نے مڑ کر اپنے پرانے رجسٹر کھولے۔ ان میں سے ایک رجسٹر میں معاہدوں کا ڈیٹا تھا—وہ معاہدے جو آخری لمحے پر منسوخ ہو گئے تھے… اور پھر کچھ دن بعد کسی معجزے کی طرح دوبارہ بحال ہو گئے۔ زارا نے قلم اٹھایا، تاریخیں لکھیں، واقعات کو جوڑنے کی کوشش کی، اور پھر اس کا ہاتھ رک گیا۔

تین بار—تین مختلف موقعوں پر—اس کے کاروبار پر حملہ ہوا۔ تینوں بار کسی نے پردے کے پیچھے سے مدد کی۔ وہ کوئی عام محافظ نہیں ہو سکتا تھا۔ اتنی سمجھ، اتنی چالاکی، اور اتنا اثر و رسوخ صرف کسی ایسے شخص کے پاس ہو سکتا تھا جو سلطنت کے خفیہ راستوں، سیاسی جال اور طاقت کے توازن کو سمجھتا ہو۔

“مگر ایسا شخص میرے آس پاس کہاں ہے؟”

دل میں ایک دھڑکا اٹھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہی شخص، جو ہر روز خاموشی سے اس کے آس پاس رہتا ہے، جو ہر بات پر کچھ کہے بغیر مسکرا دیتا ہے… وہی سب کچھ جانتا ہو؟

زارا کی آنکھوں میں اب تجسس کے ساتھ ساتھ بے یقینی بھی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ سچائی شاید بہت
قریب ہے… اور یہی بات سب سے زیادہ خطرناک تھی

خفیہ سفر اور پرانے رازوں کا دروازہ
کہانی کے اُس طرف، جہاں محل کی دیواریں ختم ہو جاتی تھیں اور سلطنت کا عام شہر شروع ہوتا تھا، ریحان ایک پرانے عبایا میں لپٹا گلیوں سے گزرتا جا رہا تھا۔ چہرے پر نقاب تھا، اور دل میں سوالات کا طوفان۔ وہ اپنے قدموں کی چاپ کے سوا کچھ نہیں سن پا رہا تھا، مگر ہر قدم کے ساتھ ایک مقصد، ایک سوال، ایک راز اسے آگے بڑھنے پر مجبور کر رہا تھا۔

“یہ سب کہاں جا رہا ہے؟ میں کون ہوں؟ میرا مقام کیا ہے؟ اور سب سے اہم… کیا وقت آ چکا ہے کہ میں خود کو دنیا کے سامنے ظاہر کروں؟”

ریحان کے ذہن میں بادشاہ—اس کے باپ—کے وہ خفیہ جملے گونجنے لگے جو اس نے آخری ملاقات میں کہے تھے:

“اب وقت قریب ہے، ریحان… سلطنت کی فضاؤں میں تبدیلی کی خوشبو ہے۔ تمہیں تیار رہنا ہوگا۔”

مگر وہ کیسا وقت تھا؟ اور کس تبدیلی کی بات کی گئی تھی؟ یہ سب سمجھنے کے لیے ریحان نے خفیہ راستوں سے گزر کر شہر کے اُس حصے کا رخ کیا، جہاں عام لوگ رہتے تھے—جہاں وہ کہانیاں جنم لیتی تھیں جو کبھی محل تک نہیں پہنچتیں۔

اس کی منزل ایک چھوٹا سا کتب خانہ تھا۔ یہ جگہ عام لوگوں کے لیے بس کتابوں کی دکان تھی، مگر اصل میں یہاں کچھ اور چھپا تھا۔ کتب فروش ایک بوڑھا شخص تھا، جس کی آنکھوں میں برسوں کی دانشمندی چھپی تھی۔ ریحان جب اس کے سامنے پہنچا تو اس نے سر اُٹھا کر کہا:

“آخر تم آ ہی گئے۔ مجھے معلوم تھا تم آئے بغیر نہ رہو گے۔”

ریحان حیران ہوا۔ “تم مجھے جانتے ہو؟”

“جانتا ہوں؟” بوڑھا مسکرایا۔ “تمہارا چہرہ تمہارے باپ سے مختلف نہیں۔ میں تمہارے نانا کا دوست تھا۔ تمہارے خون کی خوشبو سے واقف ہوں۔”

ریحان کچھ لمحے خاموش رہا۔ دل کی دھڑکن تیز ہو چکی تھی۔

“تو تمہیں معلوم ہے کہ میں کون ہوں؟”

بوڑھے نے کمرے کے ایک کونے میں رکھی پرانی الماری کی طرف اشارہ کیا۔ “اس میں تمہارے ماضی کا ایک ورق بند ہے۔ کھولو اسے، اور دیکھو کہ تمہاری حقیقت کیا ہے۔”

ریحان نے دروازہ کھولا۔ اندر ایک پرانی جلد میں لپٹی کتاب رکھی تھی، جس پر بادشاہی نشان کندہ تھا۔ جیسے ہی اس نے کتاب کھولی، اندر موجود ایک دستاویز نے سب کچھ بدل دیا۔

اس دستاویز میں سلطنت کے پرانے فرمان، خاندانی درخت، اور خفیہ وارث کے بارے میں تفصیل لکھی تھی۔ اور وہاں، ایک نام چمک رہا تھا:

ریحان ابن عزمیر۔

ریحان کی آنکھیں بھر آئیں۔ برسوں کی خاموشی، خود سے دوری، اور شناخت کا خوف… اب اس کے سامنے ایک حقیقت بن چکا تھا۔

“یہی میری تقدیر ہے؟” ریحان نے دھیرے سے کہا۔

بوڑھا خاموش رہا، مگر اس کی آنکھوں میں فخر تھا۔ “نہیں، یہ تمہارا آغاز ہے… تمہاری تقدیر کا دروازہ تو ابھی کھلا ہے، بیٹے۔”

ریحان نے کتاب بند کی، نقاب ٹھیک کیا، اور ایک نئی روشنی کے ساتھ واپس محل کی طرف چل دیا۔ اب وہ وہی شخص نہیں رہا تھا جو نکلا تھا۔ اب وہ اپنی شناخت کے پہلے نشان کو چھو کر واپس جا رہا تھا

سوالوں میں گھرا دل اور خاموش باغ
رات گہری ہو چکی تھی، محل میں ہر سمت سکوت تھا۔ مشعلیں ہلکی روشنی دے رہی تھیں، اور دروازوں پر کھڑے پہرے دار آدھی آنکھ سے جاگ رہے تھے۔ مگر زارا کی آنکھوں میں نیند کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ وہ چپ چاپ محل کے اندرونی باغ میں ٹہل رہی تھی، جہاں کی خوشبو دار ہوائیں اور سرسبز درخت بھی اس کے دل کی بےچینی کم نہ کر سکے۔

“آخر ریحان کہاں چلا گیا ہے؟” وہ دل میں بار بار یہ سوال دہرا رہی تھی۔

وہ شخص، جسے اس نے ہمیشہ سادہ، کمزور اور لاپرواہ سمجھا تھا، وہ اب دنوں سے غائب تھا۔ اور یہی خاموشی… یہی گمشدگی، زارا کو پہلی بار اس کی اہمیت کا احساس دلا رہی تھی۔

زارا نے باغ کے ایک بینچ پر بیٹھتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا۔ چاندنی چھن کر پتوں سے زمین پر پڑ رہی تھی۔ اس نے آہستہ سے کہا، “کیا میں اسے کبھی سمجھ ہی نہیں پائی؟”

چند لمحے بعد، اس کی ملازمہ زہرا چپکے سے آ کر جھکی، “بی بی جی، آپ سے ایک بات کہنی تھی۔”

زارا چونک گئی، “کہو، کیا بات ہے؟”

“مجھے شک ہے کہ کوئی محل کے باہر سے آپ پر نظر رکھ رہا ہے۔ اور شاید… شاید ریحان صاحب بھی کچھ جانتے ہیں۔”

زارا کی سانس جیسے رک گئی۔ “ریحان؟ تمہیں کیا معلوم؟”

“میں نے کئی بار انہیں رات کو خفیہ دروازے سے باہر جاتے دیکھا ہے۔ اور ہر بار وہ واپس آ کر ایسے ہوتے جیسے کسی جنگ سے گزر کر آئے ہوں۔”

زارا کی آنکھیں حیرت اور غصے سے پھیل گئیں۔ “اور تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟”

“میں ڈری ہوئی تھی، بی بی۔ میں نے سوچا شاید وہ آپ کے لیے کچھ کر رہے ہوں… آپ کے دشمنوں کے خلاف۔”

زارا کے اندر جیسے ایک طوفان اٹھنے لگا۔ وہ ماضی کے واقعات کو جوڑنے لگی—وہ سب راز، وہ بچاؤ جو آخری لمحوں پر ہوا، وہ خفیہ معلومات جو اسے بغیر کسی ذریعے کے ملی تھیں… اور اب ریحان کی یہ چپچاپ نقل و حرکت۔

“کیا یہ ممکن ہے؟” اس نے خود سے کہا۔ “کیا واقعی وہی میری حفاظت کرتا رہا ہے؟”

اس کا دل عجیب کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ ایک طرف شک، دوسری طرف ندامت۔ وہ جو ہمیشہ ریحان کو بے کار سمجھتی رہی، کیا وہی دراصل اس کا سب سے مضبوط سہارا تھا؟

زارا نے ایک فیصلہ کن انداز میں اٹھ کر کہا، “مجھے ریحان سے بات کرنی ہے۔ فوراً!”

زہرا نے دھیرے سے سر ہلایا، “لیکن بی بی، وہ اس وقت محل میں نہیں ہیں۔”

“پھر مجھے جاننا ہے کہ وہ کہاں جاتے ہیں، اور کیوں۔”

یہ پہلا موقع تھا جب زارا نے نہ صرف ریحان کو سنجیدگی سے دیکھا، بلکہ دل کی گہرائی میں ایک نیا جذبہ جاگا—تجسس، احساسِ جرم، اور شاید… محبت

زارا کا دربار میں قدم اور سلطنت کے اصل چہرے سے سامنا
دھوپ محل کی بلند و بالا کھڑکیوں سے اندر آ رہی تھی، مگر شاہی دربار کے فرش پر یہ روشنی بھی کسی گہرے سائے میں چھپی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ زارا، جس کی شناخت اب تک صرف ایک کامیاب تاجر اور وزیر کی بیٹی کے طور پر جانی جاتی تھی، آج پہلی بار شاہی دربار میں ایک نئے روپ میں داخل ہو رہی تھی—ایک ایسی عورت کے طور پر جو جانتی تھی کہ کچھ نہ کچھ سلطنت میں بہت غلط ہو رہا ہے۔

دربار کے دروازے کھلے، خادم نے زور سے اعلان کیا:

“بی بی زارا بنتِ وزیر اعظم محل میں تشریف لا رہی ہیں۔”

بادشاہ عزمیر نے سر اُٹھا کر دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں حیرانی کی ایک جھلک تھی، مگر وہ مسکرا دیا۔ “آؤ زارا، آج کا دن معمول سے مختلف لگ رہا ہے، تم نے یہ خاموشی توڑ دی۔”

زارا نے نظریں جھکا کر ادب سے سلام کیا، پھر دربار کے بیچوں بیچ کھڑی ہو گئی۔ اردگرد درباری چہ مگوئیاں کرنے لگے—کچھ اس کی ہمت پر حیران، اور کچھ حسد سے لبریز۔

“عالی جاہ، میں آپ سے ایک ذاتی نہیں، سلطنتی معاملے پر گفتگو کرنے آئی ہوں،” زارا نے کہا، اس کی آواز میں اعتماد تھا، مگر لہجے میں گہری فکر چھپی تھی۔

بادشاہ نے اشارہ کیا، “بیٹھو، اور کھل کر بات کرو۔”

زارا بیٹھ گئی، اور بولنا شروع کیا:

“پچھلے چند ہفتوں میں میرے کاروبار پر لگاتار تین بار حملے ہوئے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ ہر بار حملہ ہونے سے پہلے، یا عین وقت پر کوئی نامعلوم قوت سب کچھ سنبھال لیتی ہے۔ اور یہ صرف میرے ساتھ نہیں ہو رہا، بلکہ سلطنت کے کئی اہم تاجروں کے ساتھ بھی کچھ نہ کچھ عجیب ہو رہا ہے۔”

دربار میں ہلچل سی مچ گئی۔ کچھ چہروں پر سنجیدگی آ گئی، کچھ نے بیزاری سے سر جھکا لیا۔

بادشاہ نے غور سے پوچھا، “تم کہنا کیا چاہتی ہو؟”

زارا نے گہری سانس لی۔ “میں کہنا چاہتی ہوں کہ محل کے اندر، یا آس پاس، کوئی ایسی طاقت ہے جو ہماری سلطنت کو دو رخوں پر چلا رہی ہے۔ ایک طرف وہ جو ہماری حفاظت کر رہی ہے… اور دوسری طرف وہ جو ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے۔”

ایک درباری ہنسا۔ “کیا تم یہ کہہ رہی ہو کہ ہمارے درمیان کوئی خفیہ محافظ موجود ہے؟ شاید کوئی ایسا شخص جس کا نام ہم نہیں جانتے؟”

زارا نے پلکیں جھپکائیں۔ “شاید۔ اور مجھے شک ہے کہ وہ شخص کوئی عام نہیں، بلکہ کوئی بہت خاص ہے… جس نے اپنی شناخت چھپا رکھی ہے۔”

بادشاہ نے کچھ لمحے خاموشی اختیار کی، پھر آہستگی سے کہا، “تم نے جو سوال اٹھایا ہے، وہ بہت اہم ہے۔ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم اس معاملے کی تحقیق کرو۔ شاہی خفیہ محافظ تمہاری مدد کریں گے۔”

زارا چونکی۔ “شاہی خفیہ محافظ؟”

بادشاہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ “اگر کوئی شخص پردے کے پیچھے سے ہماری سلطنت کو بچا رہا ہے، تو ہمیں جاننا ہوگا کہ وہ کون ہے… اور وہ کیوں چھپا ہوا ہے۔”

زارا نے نظریں جھکائیں، مگر دل میں ایک نئی آگ جلنے لگی تھی۔ اب وہ صرف ایک بیوی یا بیٹی نہیں رہی تھی—اب وہ سلطنت کے ان رازوں کی تلاش میں تھی، جن کے پیچھے شاید اس کا اپنا شوہر کھڑا تھا۔

خفیہ ملاقات اور بغاوت کا سراغ
شہر کی گلیوں میں شام کا اندھیرا اترنے لگا تھا۔ بازار بند ہو رہے تھے، چراغ جلنے لگے تھے، اور لوگوں نے گھروں کا رخ کر لیا تھا۔ مگر ریحان، جو ایک سادہ مسافر کی صورت میں ان گلیوں میں چل رہا تھا، اُس کی منزل بازار یا آرام نہ تھی—بلکہ ایک خفیہ مقام تھا، جہاں سے اس کے سوالوں کے کچھ اہم جوابات ملنے والے تھے۔

وہ ایک پرانی مسجد کے عقبی دروازے پر پہنچا۔ دروازہ آہستہ سے کھلا، اور ایک کمزور سی آواز ابھری، “ریحان… تم آ ہی گئے۔”

اندھیرا کمرہ، صرف ایک چراغ کی ہلکی روشنی، اور سامنے بیٹھا ایک شخص جس کے چہرے پر وقت کی دھول تھی، مگر آنکھوں میں وہ آگ جو صرف سچ جاننے والوں میں ہوتی ہے۔

“تم کون ہو؟” ریحان نے آہستگی سے پوچھا۔

“میں وہ ہوں جس نے تمہارے والد کو بچپن میں بادشاہ بننے سے پہلے دیکھا۔ میں جانتا ہوں تم کون ہو۔”
ریحان ساکت ہو گیا۔ “تم میرے بارے میں کیا جانتے ہو؟”

“صرف اتنا کہ تمہارا دشمن تم سے پہلے تمہاری حقیقت جان چکا ہے، اور وہ تمہارے خلاف اپنا جال بُن چکا ہے۔”

ریحان نے قدم آگے بڑھایا، “کون ہے وہ؟”

بوڑھے شخص نے ایک پرانا کاغذ نکالا۔ “یہ دیکھو۔ یہ فہرست ان لوگوں کی ہے جو بادشاہ عزمیر کے خلاف سازش میں شامل ہیں۔ اور ان میں ایک نام وہ ہے جس پر تمہیں سب سے زیادہ بھروسا ہے۔”

ریحان نے جیسے ہی کاغذ پڑھا، اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔

“وزیر اشرف” — وہی شخص جو بچپن سے زارا کے والد کی حیثیت سے اس کے قریب رہا تھا۔ وہی شخص جس نے زارا کی شادی ریحان سے کروائی تھی۔ اور اب… وہی شخص ممکنہ طور پر بادشاہ کا سب سے بڑا دشمن تھا۔

“یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ تو میرے لیے باپ جیسا ہے…” ریحان کی آواز لرز گئی۔

“ظاہر یہی تھا۔ مگر اصل حقیقت یہی ہے کہ وہ جانتا ہے تم کون ہو۔ اور وہ نہیں چاہتا کہ تم سامنے آؤ۔”

ریحان کے ذہن میں ایک ہی طوفان چل رہا تھا۔
“اگر اشرف میرے بارے میں جانتا ہے… تو زارا؟ کیا وہ بھی جانتی ہے؟ یا وہ بھی بس ایک مہرہ ہے؟”

بوڑھے نے اسے روکا، “تمہیں وقت کے خلاف چلنا ہوگا۔ اگر تم نے دیر کی، تو نہ صرف تمہاری شناخت خطرے میں پڑے گی، بلکہ زارا بھی ایک ایسی بازی میں پھنس جائے گی جس کا انجام بہت بھیانک ہوگا۔”

ریحان نے آہستہ سے سر ہلایا۔ “میں تیار ہوں۔ میں اس بار خاموش نہیں رہوں گا۔”

اور اسی لمحے، ریحان کے اندر وہ پرانا لاوا پھر سے جاگ اٹھا—وہ طاقت، وہ آگ، جو برسوں سے وہ دبا کر رکھے ہوئے تھا۔
اب وقت آ چکا تھا کہ وہ نہ صرف اپنے دشمنوں کا سامنا کرے، بلکہ اپنے اصل مقام کے لیے کھڑا بھی ہو۔

زارا کی خفیہ تفتیش اور حقیقت کی پہلی جھلک
زارا اس وقت اپنی خواب گاہ میں نہیں تھی، نہ ہی دربار میں، بلکہ محل کے ایک پرانے کتب خانے کے اندر، جہاں شاہی خاندان کی پرانی دستاویزات، خفیہ رپورٹس اور پرانے معاہدے رکھے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ صرف ایک شخص تھا — اس کی خاص ملازمہ زہرا، جو اب اس کی رازدار اور مددگار بن چکی تھی۔

“بی بی جی، کیا واقعی آپ سمجھتی ہیں کہ کسی قریبی شخص پر شک کیا جانا چاہیے؟” زہرا نے دھیرے سے پوچھا۔

زارا نے پرانی الماری کی دراز کھولتے ہوئے کہا، “شک نہیں، زہرا… اب یقین ہونے لگا ہے کہ ہم جسے دوست سمجھتے ہیں، وہ شاید اصل دشمن ہو۔”

اس کے ہاتھ ایک بوسیدہ فائل پر جا ٹھہرے۔ فائل کے کور پر “وزارتِ خزانہ – مخصوص معاہدات” لکھا تھا۔ اندر موجود کاغذات کو بغور دیکھتے ہوئے، اس نے کچھ ایسی دستخط شدہ دستاویزات دیکھیں جن پر زارا کا دھیان فوراً جم گیا۔

“یہ تو میری کمپنی کے نام سے معاہدے ہیں، مگر دستخط میرے نہیں…!” اس کی آواز حیرت، غصے اور بے یقینی سے لرز گئی۔

“یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کسی نے میرے نام کا غلط استعمال کیا ہے!”

زہرا نے فائل کی طرف اشارہ کیا، “دستخط کے نیچے مہر وزیر اشرف کی ہے، بی بی۔”

زارا جیسے ایک پل کے لیے ساکت ہو گئی۔ “اب سمجھ آیا… میرے کاروبار پر جو حملے ہوئے، وہ صرف اتفاق نہیں تھے۔ یہ سب منظم طریقے سے کیا گیا… اور شاید میرے والد، اشرف صاحب، اس کے پیچھے ہیں۔”

ایک طویل خاموشی چھا گئی۔ پھر زارا آہستہ سے بولی، “زہرا، اگر یہ سب سچ ہے، تو پھر میں برسوں تک کس پر بھروسا کرتی رہی؟”

زہرا نے ہمت دلائی، “بی بی جی، ابھی سب کچھ واضح نہیں ہوا، مگر ہمیں مزید گہرائی میں جانا ہوگا۔ اگر اشرف صاحب واقعی اس سب کے پیچھے ہیں، تو وہ صرف آپ کو نقصان نہیں پہنچا رہے… وہ بادشاہت کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔”

زارا کے دل میں ایک نئی آگ بھڑک اٹھی۔ وہ صرف تاجر یا بیوی نہیں رہی تھی—اب وہ ایک لڑاکا بن رہی تھی، جو سچائی کو سامنے لانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔

“زہرا، اس بارے میں کوئی بات محل کے کسی دوسرے فرد کو نہ پتہ چلے۔ یہ معاملہ صرف ہمارے درمیان رہے گا… کم از کم جب تک میں مکمل سچ نہ جان لوں۔”

زارا نے فائل بند کی، اور اس لمحے اس کی آنکھوں میں وہ چمک پیدا ہوئی جو کسی عام عورت میں نہیں ہوتی—یہ چمک اس لڑکی کی تھی جو سلطنت کے اقتدار کو سمجھنے اور سنبھالنے کے لیے تیار ہو چکی تھی۔

اب سوال یہ تھا:
کیا وہ ریحان سے پہلے سچائی تک پہنچے گی؟ یا ان دونوں کے راستے کسی خطرناک مقام پر جا ملیں گے؟

خاموش عہد اور قربانی کا آغاز
رات کا وقت تھا، لیکن یہ وہ رات نہ تھی جو سکون دیتی ہے۔ یہ وہ رات تھی جب ایک مرد اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان کھڑا ہوتا ہے—تنہا، خاموش اور الجھا ہوا۔

ریحان محل کے پچھلے دروازے سے واپس آ رہا تھا۔ لباس گرد آلود، آنکھوں میں تھکن، مگر چہرے پر ایک عجیب سی روشنی تھی—جیسے کسی نے اپنی حقیقت کو قبول کر لیا ہو۔

محل کی دیواروں کے اندر قدم رکھتے ہی اسے احساس ہوا کہ وہ اب وہ شخص نہیں رہا جسے زارا نکما سمجھتی تھی۔ وہ اب ایک ایسی حقیقت کا مالک تھا جس سے نہ صرف سلطنت، بلکہ زارا کی تقدیر بھی جڑی تھی۔

وہ سیدھا اپنے کمرے میں آیا۔ چراغ جلا، اور میز پر بیٹھ گیا۔ اس نے پرانے کاغذات، وہ راز جو اسے ملے تھے، اور وہ نام—اشرف—جو اب اس کے سینے پر بوجھ بن چکا تھا—سب کچھ سامنے رکھ دیا۔

“اگر اشرف واقعی سلطنت کا دشمن ہے… تو کیا میں زارا کو سب کچھ بتا سکتا ہوں؟ کیا وہ میرا یقین کرے گی؟”

ریحان کا دل کئی بار ٹوٹا تھا، لیکن یہ سوال اس کے دل میں چھری کی طرح چبھا۔

اسی وقت دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔

“ریحان؟” زارا کی آواز تھی۔

ریحان نے چونک کر دروازہ کھولا۔ زارا وہاں کھڑی تھی، چہرے پر سوال، آنکھوں میں تھوڑی نرمی۔

“کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟”

ریحان نے ایک لمحے کی خاموشی کے بعد دروازہ کھول دیا۔

زارا کمرے میں داخل ہوئی، اور بغیر کچھ کہے سامنے بیٹھ گئی۔ دونوں کے درمیان چند لمحوں کی خاموشی طاری رہی۔

پھر زارا بولی، “مجھے پتہ ہے کہ تم راتوں کو محل سے باہر جاتے ہو۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میرے کاروبار کو بچانے میں شاید تمہارا ہاتھ ہے۔ اور آج میں صرف یہ جاننے آئی ہوں کہ… آخر تم ہو کون؟”

ریحان نے اسے غور سے دیکھا، پھر نظریں جھکا لیں۔ “میں وہ ہوں جو برسوں سے اپنی حقیقت سے بھاگ رہا تھا۔ اور اب جب وہ حقیقت میرے سامنے کھڑی ہے… تو میں چاہتا ہوں کہ تم بھی اسے جانو، لیکن سچائی بہت بھاری ہے، زارا۔”

زارا کا چہرہ سخت ہو گیا۔ “تمہارے دل میں میرے لیے اتنی محبت تھی، اور تم نے مجھے کبھی کچھ بتایا نہیں؟”

ریحان نے دھیرے سے کہا، “محبت چھپائی جا سکتی ہے، زارا، مگر سچائی چھپانا بزدلی ہوتی ہے۔ میں اب بزدلی نہیں کر سکتا۔”

زارا خاموش رہی، جیسے کچھ سمجھنا چاہتی ہو۔ ریحان نے آگے بڑھ کر میز پر رکھا ہوا وہ پرانا کاغذ اس کے سامنے رکھ دیا، جس میں اشرف کے بغاوت میں ملوث ہونے کا ثبوت تھا۔

زارا کے ہاتھ کانپنے لگے۔ “یہ… میرے والد؟”

ریحان نے کہا، “میں چاہتا تو یہ بات بادشاہ کو فوراً بتا سکتا تھا۔ لیکن میں نے تمہیں پہلے بتانا بہتر سمجھا۔ کیونکہ تم صرف اشرف کی بیٹی نہیں، تم میری… زندگی ہو۔”

زارا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ چند لمحے دونوں خاموش رہے۔

پھر ریحان اٹھا، اور دھیرے سے بولا، “میں ایک فیصلہ کر چکا ہوں، زارا۔ میں اب خاموش نہیں رہوں گا۔ میں وہ سب کچھ کروں گا جو ایک اصل وارث کو کرنا چاہیے۔ لیکن اگر تم میرا ساتھ نہ دے سکی، تو میں سمجھوں گا کہ میری راہ الگ ہے۔”

زارا نے سر جھکا لیا، پھر آہستہ سے بولی، “میں کچھ وقت چاہتی ہوں… سچائی بہت بھاری ہے۔”

ریحان نے اثبات میں سر ہلایا، اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا—ایک ایسا مرد، جو اب صرف شوہر یا بیٹا نہیں رہا تھا… بلکہ ایک حقیقت کا امین بن چکا تھا۔

بادشاہ کی تنہائی اور فیصلہ کن لمحہ
شاہی محل کے سب سے اونچے برج پر کھڑا بادشاہ عزمیر رات کی تاریکی میں آسمان کو تک رہا تھا۔ پورے شہر پر سکوت طاری تھا، لیکن اس کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی ہلچل مچا رہی تھی۔ نہ جانے کیوں، آج اسے لگ رہا تھا کہ وقت تیزی سے اس کے ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے۔

اس نے اپنی چادر کو خود پر لپیٹا اور ایک گہری سانس لی۔
“میں نے اپنی سلطنت کو ہمیشہ ایک باپ کی طرح سنبھالا،” اس نے دل میں سوچا۔ “مگر شاید میں اپنے بیٹے کو کھو بیٹھا۔”

اسی لمحے، ایک خفیہ دروازے سے اس کا سب سے وفادار خادم داخل ہوا۔

“عالی جاہ، خفیہ محافظوں نے اطلاع دی ہے کہ وزیر اشرف کی کچھ سرگرمیاں مشکوک پائی گئی ہیں۔ وہ کچھ ایسے افراد سے رابطے میں ہے جو بظاہر تاجر ہیں، مگر اصل میں سیاسی سازشی لگتے ہیں۔”

بادشاہ نے چونک کر پوچھا، “کیا کوئی ثبوت ہے؟”

خادم نے سر ہلایا، “ابھی مکمل نہیں، مگر ایک اور عجیب بات بھی ہے، عالی جاہ… زارا بی بی نے بھی خفیہ طور پر ان سرگرمیوں کی چھان بین شروع کر دی ہے۔”

بادشاہ کا دل دھڑکا۔ “زارا؟”

“جی، اور کہا جا رہا ہے کہ وہ شاید وزیر اشرف کے خلاف کچھ معلومات حاصل کر چکی ہیں، مگر ابھی خاموش ہیں۔”

بادشاہ کے چہرے پر ایک گہری فکر ابھر آئی۔ “تو سب کچھ ٹوٹ رہا ہے… اندر سے۔”

وہ پلٹ کر اپنے کمرے میں گیا، ایک پرانا صندوق کھولا۔ اس میں وہ خفیہ دستاویزات تھیں جو اس نے برسوں پہلے چھپائی تھیں—وہی جن میں ریحان کی پیدائش، اس کی موت کی جعلی خبر، اور اس کی حفاظت کے لیے وزیر وفادار کو دیا گیا منصوبہ درج تھا۔

اس نے ایک پرانا خط نکالا، جس میں لکھا تھا:

“اگر کبھی وقت آئے کہ دشمن تمہارے گھر کے اندر موجود ہو، تو صرف اپنے بیٹے کو آواز دینا۔ وہی تمہارا اصل وارث، اصل محافظ ہے۔”

بادشاہ کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔
“ریحان… اگر تم سن رہے ہو، تو جان لو کہ وقت آ چکا ہے۔ میں تمہیں اب مزید پردے میں نہیں رکھ سکتا۔”

اگلے ہی لمحے، اس نے شاہی خفیہ محافظ کو بلا بھیجا۔

“ریحان کو تلاش کرو۔ وہ جس بھیس میں ہو، جس بھی نام سے ہو، مجھے فرق نہیں پڑتا۔ اسے میرے پاس لے آؤ۔ اور ہاں… اگر زارا کو پہلے سچائی معلوم ہو چکی ہے، تو اسے بھی یہاں بلایا جائے۔”

محافظ نے تعظیم کی اور فوراً روانہ ہو گیا۔

بادشاہ نے اپنی شاہی انگوٹھی اتاری، اور اسے غور سے دیکھا۔
“کیا تم تیار ہو، میرے بیٹے؟”
“کیا تم اس سلطنت کو سنبھالنے کے لیے خود کو ظاہر کرو گے؟”

باہر رات کا سناٹا گہرا ہوتا جا رہا تھا، مگر اندر… بادشاہی محل کے دل میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔

باپ اور بیٹی کے درمیان خاموش جنگ
شام کے سائے محل کی دیواروں پر گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ زارا اپنی خواب گاہ سے نکلی اور ایک طویل راہداری عبور کرتے ہوئے اس کمرے کی طرف جا رہی تھی جہاں اس کا والد وزیر اشرف عموماً شاہی دستاویزات دیکھنے میں مصروف ہوتا تھا۔

آج اس کے قدموں میں وہ نرمی نہیں تھی جو ایک فرمانبردار بیٹی کے ہوتے ہیں، بلکہ ایک سوال، ایک جستجو، اور اندر ہی اندر ٹوٹتی ہوئی دنیا کا بوجھ تھا۔

کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھولا۔ اشرف کاغذات میں مصروف تھا، جیسے دنیا سے بے خبر ہو۔ زارا خاموشی سے اندر داخل ہوئی، دروازہ بند کیا، اور کچھ لمحوں تک خاموش کھڑی رہی۔

اشرف نے سر اُٹھایا، چہرے پر مسکراہٹ آئی۔
“زارا، میری بیٹی، اس وقت؟ خیریت؟”

زارا نے گہری سانس لی، اور کہا، “بابا، کیا آپ مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں؟”

اشرف نے پلکیں جھپکائیں۔ “کیسی باتیں کر رہی ہو؟ میں تم سے کیوں کچھ چھپاؤں گا؟”

زارا نے میز پر ایک فائل رکھ دی۔ “یہ معاہدے… یہ دستخط… یہ جعلی کاغذات۔ اور یہ مہر—آپ کی۔”

اشرف کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ اس نے فائل کو آہستہ سے بند کیا، اور نظریں زارا پر جمائیں۔ “تم کہاں سے لائیں یہ سب؟”

“محل کے کتب خانے سے، جہاں وہ سب رکھا جاتا ہے جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی دیکھے گا نہیں۔” زارا کی آواز میں لرزش تھی، مگر انداز مضبوط۔

اشرف کچھ لمحے خاموش رہا، پھر بولا، “تم ابھی چھوٹی ہو، زارا۔ تم نہیں سمجھتیں کہ سلطنتیں کیسے چلتی ہیں۔ بعض دفعہ بڑے فیصلے چھوٹے جھوٹ پر کھڑے ہوتے ہیں۔”

زارا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ “جھوٹ؟ اور وہ بھی میرے ساتھ؟ آپ نے میرے نام پر جعلی معاہدے کروائے؟ میرے شوہر کے بارے میں جھوٹ پھیلائے؟”

اشرف نے کہا، “تمہارے شوہر کے بارے میں تم کچھ نہیں جانتیں۔ اگر تم جان جاؤ، تو شاید اس پر بھروسہ کرنا چھوڑ دو۔”

“تو پھر بتائیں مجھے! سچ کیا ہے؟” زارا نے تقریباً چیخ کر کہا۔

اشرف آہستہ سے اٹھا، کمرے کے ایک خفیہ دراز سے ایک پرانا صندوق نکالا۔ اس میں ایک کاغذ تھا جس پر خفیہ زبان میں کچھ لکھا تھا۔ اشرف نے وہ کاغذ زارا کے سامنے رکھا۔

“یہ پڑھو، اگر تمہیں سچ ہی جاننا ہے۔ مگر یاد رکھو، ہر سچائی دل کو سنبھال نہیں سکتی۔”

زارا نے کاغذ کو ہاتھ میں لیا، اور پڑھنا شروع کیا۔ جوں جوں وہ الفاظ اس کی آنکھوں سے گزرتے گئے، اس کا چہرہ بدلتا گیا۔

“ریحان… شاہی خاندان کا وارث؟”

اشرف نے گہری سانس لی، “ہاں۔ وہ بادشاہ عزمیر کا بیٹا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں اسے کبھی سلطنت کا حصہ نہیں بننے دوں گا۔”

زارا کی آنکھوں میں اب صرف دکھ نہ تھا، بلکہ غصہ، بے یقینی اور بغاوت کی چمک تھی۔

“آپ نے مجھے اپنے ہی شوہر سے دور رکھا، صرف اپنی طاقت کے لیے؟”

اشرف نے کچھ نہیں کہا۔ مگر زارا نے فیصلہ کر لیا تھا۔

“میں یہ سب بادشاہ کو بتاؤں گی۔ اور ریحان کو بھی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سچائی کو چھپایا نہ جائے۔”

وہ تیزی سے پلٹی، دروازہ کھولا، اور کمرے سے نکل گئی۔ اشرف چپ چاپ بیٹھا رہا، جیسے اسے معلوم تھا کہ اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہے گا۔

بادشاہ کا سامنا، وارث کا انکشاف
رات کے تیسرے پہر کا وقت تھا۔ محل کے مرکزی ہال میں چراغ روشن کیے جا چکے تھے۔ دربار عام نہیں، بلکہ ایک خفیہ اجلاس ہونے جا رہا تھا—صرف تین افراد کے درمیان: بادشاہ عزمیر، زارا، اور… ریحان۔

زارا اور ریحان الگ الگ راہوں سے محل کے اندرونی دربار میں داخل ہوئے۔ دونوں کے چہرے سنجیدہ تھے، دل بھاری، اور ذہن میں سوالات کی ایک دنیا تھی۔ دروازہ بند ہوا۔ ہال میں صرف بادشاہ عزمیر موجود تھا، جو تخت پر بیٹھا تھا مگر آج ایک باپ زیادہ لگ رہا تھا۔

ریحان نے آگے بڑھ کر تعظیم کی، مگر بادشاہ نے ہاتھ اُٹھا کر اسے روک دیا۔

“نہیں، بیٹے… آج تعظیم نہیں، صرف سچ کی بات ہوگی۔”

زارا خاموش کھڑی تھی، آنکھیں کبھی ریحان پر، کبھی بادشاہ پر۔ وہ جانتی تھی کہ جو کچھ آج سنے گی، وہ اس کی زندگی کو بدل دے گا۔

بادشاہ اٹھا، آہستہ سے بولا، “ریحان، تمہاری خاموشی، تمہاری قربانی، اور تمہاری وفا نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اب تمہیں مزید پردے میں نہ رکھوں۔ تم میرے بیٹے ہو۔ زہراڈس کے اصل وارث۔ تمہاری ماں وہ عورت تھی جس سے میں نے خفیہ نکاح کیا تھا، اور جسے میرے دشمنوں نے ختم کر دیا۔ تمہیں بھی مارنے کی کوشش کی گئی، مگر میرا وفادار وزیر تمہیں بچا لے گیا۔”

ریحان کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ “میں جانتا تھا، لیکن یہ سن کر دل ہل گیا ہے۔”

بادشاہ نے زارا کی طرف دیکھا۔ “اور زارا… تم میری سلطنت کی بہادر ترین عورت ہو۔ مگر شاید تمہیں آج یہ سمجھنا ہوگا کہ تمہارا شوہر وہ نہیں جسے تم نے ہمیشہ سمجھا۔”

زارا آہستگی سے آگے بڑھی۔ “کیا سب کچھ سچ ہے؟ کیا ریحان ہی اصل وارث ہے؟”

ریحان نے دھیرے سے کہا، “ہاں۔ اور میں نے تم سے کچھ نہیں چھپایا، صرف اس لیے کہ تمہاری زندگی میں سکون رہے۔ مگر اب وقت آ گیا ہے کہ میں سامنے آؤں۔”

زارا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ “میں تمہیں سمجھ نہیں پائی، ریحان۔ مگر آج… میں تمہارے ساتھ کھڑی ہوں۔ نہ صرف بطور بیوی، بلکہ بطور تمہارے حق کے ساتھ کھڑی ایک عورت۔”

بادشاہ نے ایک پرانی انگھوٹی نکالی—شاہی وراثت کی علامت۔

“یہ تمہارا حق ہے، ریحان۔”

ریحان نے ہاتھ آگے بڑھایا، مگر رُک گیا۔

“ابھی نہیں۔ جب تک میں سلطنت کے دشمنوں کو ختم نہ کر دوں، یہ تخت میرے قابل نہیں۔ مجھے ابھی کچھ حساب چکانے ہیں… اشرف جیسے غداروں سے۔”

بادشاہ نے فخر سے سر ہلایا۔ “تب تک یہ تخت تمہارا انتظار کرے گا، میرے بیٹے۔”

زرہ کی آنکھوں میں اب احترام تھا، محبت تھی، اور ایک نیا اعتماد۔
ریحان کی نگاہوں میں ایک عزم، اور دل میں ایک آگ تھی۔
بادشاہ کی آنکھوں میں سکون، مگر چہرے پر ایک سوال:
“کیا میرا بیٹا وقت سے پہلے ہی حکمران بن جائے گا؟”

دربار کے چراغ جھلملانے لگے، اور وقت کی لکیر ایک نئی سمت میں مڑ گئی۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ اب ہوگا کیا؟
کیا ریحان اشرف کا پردہ فاش کر پائے گا؟
کیا زارا اپنے والد کے خلاف کھڑی ہو سکے گی؟
اور بادشاہ… کیا وہ وقت آنے سے پہلے تخت چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گا؟
جاننے کے لیے دیکھیں اگلی قسط — جہاں قربانی، جنگ اور تقدیر کی نئی داستان لکھی جائے گی۔

اس قسط میں بس اتنا ہی۔

Previous Episode Next Episode

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *