دی الٹی میٹ ماسٹر آف زہراڈس
چھٹی قسط
عنوان: عشق، اسرار، اور آخری مرحلہ
زارا کی خاموش محبت، ایک بے قرار دل
صبح کی نرم دھوپ محل کے باغیچے پر برس رہی تھی۔ درختوں کی چھاؤں میں روشنی کا کھیل، ہواؤں میں خوشبو، اور چڑیوں کی چہچہاہٹ سب کچھ جیسے کسی خواب کا منظر تھا۔ مگر زارا کی دنیا میں ایک اور ہی روشنی ابھر چکی تھی—ایک روشنی جو دل کے اندر جلتی تھی، جس کا مرکز ایک شخص تھا: ریحان۔
زارا اُس سنگ مرمر کے بینچ پر بیٹھی تھی، جہاں وہ پہلے اکثر اکیلے سوچوں میں گم رہتی تھی۔ مگر آج اُس کے ہاتھ میں وہ خط تھا جو ریحان نے شاہی دربار میں دیانت داری کے ساتھ بادشاہ کے سامنے رکھا تھا۔ ایک شوہر جو اصل میں وارث تھا، جو محبت میں خاموش تھا، مگر سچائی میں بے باک۔
زارا کی نظریں خط پر جمیں تھیں، مگر دل کہیں اور تھا۔
“وہ شخص جسے میں نے کمزور سمجھا… وہ تو میرے لیے سب کچھ کرتا رہا۔ اور میں؟ میں تو صرف تماشائی بنی رہی…”
اس کے دل میں ایک عجیب سی کسک تھی۔ وہ ریحان سے دور تو تھی، مگر اب ہر لمحہ اُس کی یاد میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ جو ہر رات خاموشی سے چلا جاتا، کوئی سوال نہ کرتا، کوئی شکایت نہ کرتا… درحقیقت وہی زارا کا سب سے بڑا سہارا نکلا۔
“میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ ہاں… شاید یہ دیر سے احساس ہوا، مگر اب اس کا انکار ممکن نہیں۔”
زارا نے پلکیں بند کیں، اور دل میں ریحان کی وہ تمام جھلکیاں ابھر آئیں:
جب وہ خاموشی سے باغ میں چہل قدمی کرتا
جب اس کی نگاہیں سوال کرتی مگر زبان خاموش رہتی
جب اس نے وہ کاغذ اس کے سامنے رکھا جس میں اشرف کی غداری لکھی تھی
اور جب اس نے کہا: “تم میری زندگی ہو…”
زارا کے چہرے پر نمی تھی، مگر یہ آنسو دکھ کے نہیں تھے—یہ عشق کی پہلی شدت کا احساس تھا۔
“اب میں صرف اس کی بیوی نہیں بننا چاہتی… میں اس کی ساتھی بننا چاہتی ہوں۔ ہر سفر میں، ہر جنگ میں، ہر قربانی میں۔”
اسی لمحے، زہرا آ کر رکی، “بی بی جی، ریحان صاحب صبح سے محل میں نظر نہیں آئے۔”
زارا نے دھیرے سے کہا، “پتا ہے، وہ کہاں ہیں۔ وہ اپنے سفر پر ہیں… اپنے آپ سے ملنے۔”
زہرا حیران ہوئی، “آپ کو کیسے یقین ہے؟”
زارا مسکرائی۔ “کیونکہ اب، وہ مجھ سے چھپ نہیں سکتے۔ اُن کی خاموشی اب مجھ سے بات کرتی ہے۔”
یہ عشق کا آغاز نہیں تھا، بلکہ ایک نیا مرحلہ تھا—جہاں صرف قربت نہیں، بلکہ وفا، اعتماد، اور ایک روحانی رشتہ بھی پیدا ہو چکا تھا۔
زارا نے آسمان کی طرف دیکھا، دل میں ایک دعا کے ساتھ:
“واپس آؤ، ریحان۔ مگر اس بار، صرف میرے شوہر بن کر نہیں… میرے ساتھی بن کر، میری طاقت بن کر۔”
پراسرار وادی اور خود سے ملاقات
دوپہر کے سناٹے میں سورج اپنے عروج پر تھا، مگر پہاڑوں کے درمیان موجود اُس وادی میں ایک عجیب سی ٹھنڈک تھی۔ ریحان آہستہ آہستہ قدم رکھتا ایک پتھریلے راستے سے نیچے اتر رہا تھا، جیسے کسی ایسی جگہ جا رہا ہو جہاں ہوا بھی راز سنبھالے بیٹھی ہو۔
یہ مقام اسے ایک خواب میں دکھایا گیا تھا۔ خواب میں ایک بزرگ نمودار ہوا تھا—روشن پیشانی، سفید ریش، اور آنکھوں میں ایسی گہرائی جیسے وہ زمانوں کا علم رکھتا ہو۔ وہ کہہ رہا تھا:
“تمہاری اصل طاقت تمہارے باہر نہیں، اندر ہے۔ اس وادی میں تمہاری آزمائش ہے۔ اگر کامیاب ہوئے، تو وہ دروازہ کھلے گا جسے صرف چنیدہ لوگ دیکھ سکتے ہیں۔”
ریحان کے قدم رُک گئے۔ اُس کے سامنے زمین پر قدرتی انداز میں ایک دائرہ بنا ہوا تھا، جیسے صدیوں سے کسی مقدس انتظار میں ہو۔ دائرے کے بیچ میں چھوٹے چھوٹے پتھر ترتیب سے رکھے ہوئے تھے، اور ان پر کچھ عجیب سی تحریریں کندہ تھیں۔
ریحان نے آنکھیں بند کیں، گہری سانس لی، اور اس دائرے میں بیٹھ گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جہاں مراقبہ کی اصل روح شروع ہوتی ہے—جہاں انسان باہر کی آوازوں سے کٹ کر صرف اندر کی گونج سنتا ہے۔
ابتدا میں اسے اپنے دل کی دھڑکن سنائی دی۔ پھر وہ گونج، جو ایک وقت میں شور لگتی ہے اور دوسرے لمحے خاموشی جیسی محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنے بچپن کے لمحے دیکھنے لگا، ماں کا لمس، بوڑھے وزیر کی شفقت، اور زارا کی خاموش محبت۔
پھر اچانک سب کچھ دھندلا سا ہو گیا۔
اس کے سامنے ایک سایہ اُبھرا۔ یہ کوئی دشمن نہ تھا، نہ دوست—یہ خود ریحان تھا، مگر ایک ایسی شکل میں جو کمزور تھی، خوفزدہ، شکست خوردہ۔
“تم وہ ہو جس سے میں لڑتا رہا ہوں؟” ریحان نے نرمی سے کہا۔
سایہ مسکرایا، “میں وہ ہوں جو تمہارے شک، غصے اور تکبر سے بنا ہوں۔ تم مجھے جیتے آئے ہو… اب تم مجھے ختم کر سکتے ہو؟”
ریحان نے آنکھیں کھولیں۔ وہ زمین پر سیدھا ہو کر بیٹھا، ہاتھ باندھے، اور آسمان کی طرف دیکھا۔
“میں اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرتا ہوں، مگر ان کا غلام نہیں۔ میں ان کا حاکم ہوں۔”
سایہ آہستہ آہستہ تحلیل ہو گیا، اور فضا میں جیسے ایک روشنی سی پھیل گئی۔ ریحان کے ہاتھوں میں ہلکی سی توانائی محسوس ہوئی، جیسے ہوا میں چمک رچ بس گئی ہو۔ اس کی آنکھیں بند تھیں مگر وہ دیکھ رہا تھا، اور محسوس کر رہا تھا کہ کوئی توانائی اس کے اندر جاگ رہی ہے—ایک ایسی طاقت جو صدیوں سے اس کی روح میں چھپی تھی۔
یہ طاقت نہ کسی کو دکھائی دے سکتی تھی، نہ سمجھی جا سکتی تھی۔
یہ صرف ریحان کی تھی… اور صرف وہی جانتا تھا کہ وہ کون بننے والا ہے
خوابوں کی روشنی اور روحانی دروازہ
رات گہری ہو چکی تھی، اور آسمان پر چاندنی پوری آب و تاب سے چمک رہی تھی۔ وادی میں پھیلا سناٹا کسی مقدس فضا کا احساس دلا رہا تھا۔ ریحان ایک پتھر پر بیٹھا، مراقبے کی حالت میں گہرے سکون میں تھا۔ اس کے گرد و نواح میں نہ کوئی پرندہ پر مار رہا تھا، نہ کوئی درخت ہل رہا تھا—گویا وقت خود رک گیا ہو۔
ایک لمحے کو اس کی سانسیں رک سی گئیں، اور اگلے لمحے اس کی آنکھیں بند رہتے ہوئے بھی روشنی سے بھر گئیں۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ نیند میں جا رہا ہے، مگر یہ نیند عام نہ تھی۔
اس نے خود کو ایک نئی دنیا میں پایا۔ ایک خواب… مگر اتنا واضح، جیسے سب کچھ حقیقت ہو۔ سامنے وہی بزرگ کھڑے تھے، جنہیں وہ پہلے بھی اپنے خواب میں دیکھ چکا تھا۔ اُن کی آنکھوں میں محبت اور جلال دونوں کا امتزاج تھا۔
“تم نے اپنے نفس پر قابو پایا، اب وقت ہے کہ تم اصل دروازہ دیکھو۔”
ریحان نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔ سامنے ایک پہاڑ کھڑا تھا، مگر اس کے بیچ میں ایک بڑا، بلند دروازہ۔ وہ دروازہ کسی دھات سے نہیں، روشنی سے بنا تھا۔ اس پر کُندہ تحریریں کسی اور ہی زبان میں تھیں، جو اس کے دل میں گونج بن کر اُترنے لگیں۔
“یہ ہے تمہاری طاقت کا اصل دروازہ، لیکن اس سے گزرنے کے لیے تمہیں اپنی روح کی تین پرتیں کھولنی ہوں گی: خوف، غصہ، اور غرور۔”
ریحان نے آہستہ سے کہا، “اگر میں ناکام ہو گیا؟”
بزرگ نے مسکرا کر کہا، “تو تم ویسا ہی بن جاؤ گے جیسا تمہیں یہ دنیا سمجھتی آئی ہے—بے حیثیت، بے نام، بے اثر۔ مگر اگر کامیاب ہوئے… تو دنیا تمہیں پہچانے یا نہ پہچانے، تمہاری طاقت تمہارا تعارف بن جائے گی۔”
دروازہ آہستہ آہستہ چمکنے لگا، جیسے وہ ریحان کو دعوت دے رہا ہو۔ ریحان نے قدم آگے بڑھایا، مگر جیسے ہی وہ دروازے کے قریب پہنچا، ایک شدید روشنی اُس کی آنکھوں میں پڑی، اور وہ گر پڑا۔
جسم بے حرکت، مگر روح بیدار۔
اس لمحے اسے اپنے ماضی کی چند جھلکیاں یاد آئیں: ماں کی آغوش، بوڑھے وزیر کی تربیت، اور زارا کی وہ خاموش محبت جسے وہ اب تک صرف محسوس کرتا آیا تھا۔
“مجھے یہ دروازہ کھولنا ہے… اپنے لیے، ان سب کے لیے جنہوں نے میرا یقین کیا، اور ان کے لیے بھی جنہوں نے مجھے کبھی پہچانا نہیں۔”
روشنی آہستہ آہستہ کم ہوئی، اور بزرگ کی آواز اُس کے دل میں گونجی:
“تم جاگ رہے ہو، مگر ابھی مکمل نہیں۔ تمہیں ابھی اور آگے جانا ہے، ریحان۔”
ریحان نے آنکھیں کھولیں، پسینہ اس کے ماتھے پر تھا، سانسیں تیز، اور دل میں ایک نئی توانائی۔ اسے یقین ہو چکا تھا کہ وہ اب صرف ایک انسان نہیں رہا—وہ اُس منزل کی طرف جا رہا ہے جہاں سے پلٹنا ممکن نہیں۔
خاموشی کا زلزلہ اور توانائی کا راز
وادی کی فضا میں اب ایک الگ سی کیفیت تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہوا بھی رُک گئی ہو، پرندے کہیں چھپ گئے ہوں، اور پہاڑوں نے اپنی سانسیں کھینچ لی ہوں۔ ریحان چٹان کے اوپر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا، آنکھیں بند، جسم ساکت، مگر دل کی دھڑکن تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔
یہ اس کے مراقبے کا تیسرا دن تھا۔ کھانے، نیند، اور دنیا کی ہر چیز سے کٹا ہوا، وہ صرف اپنے اندر جھانک رہا تھا۔ اس نے زندگی میں پہلی بار اس قدر گہری خاموشی کو محسوس کیا تھا—وہ خاموشی جس میں صدا تھی، اور وہ صدا جو صرف اسے سنائی دیتی تھی۔
اچانک، ایک جھماکہ سا ہوا… مگر باہر نہیں، اندر۔
ریحان کے دل کی دھڑکن جیسے ایک لمحے کو رُک گئی۔ وہ اندر کے ایک ایسے کمرے میں داخل ہو چکا تھا، جس کا دروازہ اس نے کبھی کھولا ہی نہ تھا۔
سامنے روشنی کا ایک دائرہ بنا، اور اس کے درمیان ایک آئینہ نمودار ہوا۔ یہ وہی آئینہ تھا جو اس نے پہلے دن ٹوٹتے دیکھا تھا، مگر اب وہ مکمل تھا، اور اس کے اندر کچھ نیا نظر آ رہا تھا—وہ خود… مگر ایک نئی شکل میں۔
اس کی آنکھیں نیلی چمک سے جگمگا رہی تھیں، ہاتھوں میں دھیمی توانائی کی چمک، اور پیشانی پر ایک ہلکی سی روشن لکیر۔
“کیا یہ میرا مستقبل ہے؟ یا میری حقیقت؟” ریحان نے خود سے سوال کیا۔
اس نے ہاتھ آگے بڑھایا، آئینے کو چھونے کے لیے—جیسے ہی اس کی انگلی روشنی کو چھوتی ہے، ایک زوردار ارتعاش اس کے پورے وجود میں دوڑ جاتا ہے۔ وہ پیچھے جھٹک جاتا ہے، سانسیں بے قابو، اور پسینہ جسم پر بہنے لگتا ہے۔
مگر اس جھٹکے کے ساتھ ہی… کچھ جاگ اٹھا۔
اس کی سماعت تیز ہو گئی۔ اُس نے پرندوں کی آوازیں ایک میل دور سے سن لیں۔ زمین پر رینگتے کیڑے کی حرکت بھی اس کے کانوں میں محسوس ہونے لگی۔ اور سب سے بڑھ کر، اُس نے اپنے دل کی دھڑکن میں ایک اور آواز سنی—وہ زبان جو وہ کبھی سمجھ نہ پایا تھا، اب اسے سمجھ آنے لگی تھی۔
“تم اپنے راستے پر ہو، مگر ابھی مکمل نہیں۔ تمہاری طاقت جاگ چکی ہے، مگر اس کا اظہار صرف اُس وقت ہوگا، جب تم خود کو فنا کر کے دوسروں کے لیے جی سکو۔”
یہ آواز نہ آسمان سے تھی، نہ زمین سے۔ یہ اُس کے باطن سے ابھرنے والی صدا تھی۔
ریحان نے آنکھیں کھولیں۔ چٹان پر بیٹھے ہوئے اس کی سانس اب متوازن ہو چکی تھی۔ بدن ہلکا محسوس ہو رہا تھا، مگر اندر ایک طوفان مچ رہا تھا—طاقت کا، آگاہی کا، بیداری کا۔
اس نے آسمان کی طرف دیکھا، جیسے وہاں کسی اور کو پکار رہا ہو۔
“اب میں جان چکا ہوں کہ میں کون ہوں۔ مگر دنیا کو یہ کب پتہ چلے گا؟”
یہ سوال بھی اس کے اندر ہی گونجا… اور جواب؟
شاید وقت کے ساتھ آئے گا۔
مگر ایک بات واضح ہو گئی تھی—ریحان اب صرف مراقبہ نہیں کر رہا، وہ اپنے تقدیر کی تیاری کر رہا تھا۔
تڑپتی ہوئی محبت اور دل سے جُڑی تلاش
محل کے اندر شام کا وقت تھا۔ خدام چراغ جلا رہے تھے، خنکی بڑھ رہی تھی، اور زارا اپنے کمرے کی بالکونی سے دور آسمان کو دیکھ رہی تھی۔ اُس کے چہرے پر اداسی، آنکھوں میں نمی، اور دل میں اضطراب تھا۔ ریحان کو گئے کئی دن ہو چکے تھے، اور اب خاموشی اس کے اندر گونجنے لگی تھی۔
وہ صوفے پر آہستہ سے بیٹھ گئی، اور اپنی ڈائری نکالی۔ یہ وہی ڈائری تھی جس میں وہ کبھی صرف کاروباری منصوبے لکھا کرتی تھی۔ مگر آج اُس کے قلم سے نکلنے والے الفاظ بالکل مختلف تھے:
“میں نے اسے تب تک نہ پہچانا، جب تک وہ خاموش رہا۔ مگر اب جب وہ خاموشی چھوڑے بغیر چلا گیا ہے… تو دل چیخ رہا ہے۔”
اس نے قلم رکھ دیا، اور اپنی ملازمہ زہرا کو بلایا۔
“زہرا، کیا ریحان کی کوئی خبر ملی؟”
زہرا نے سر جھکا کر آہستہ سے کہا، “نہیں بی بی جی۔ محل کے کسی کونے میں نہیں، اور نہ ہی باہر کے سپاہیوں نے اسے دیکھا۔”
زارا کچھ لمحے خاموش رہی، پھر دھیرے سے بولی، “کیا تم جانتی ہو کہ جب کوئی بہت قریبی شخص چلا جائے… تو صرف اُس کی غیر موجودگی نہیں، اُس کی سانسوں کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے؟”
زہرا نے پہلی بار اپنی مالکن کو اس قدر نرم اور بے بس دیکھا۔ “بی بی جی، آپ ان سے محبت کرتی ہیں، نا؟”
زارا نے پلکیں بند کیں۔ “شاید… میں ہمیشہ کرتی تھی، لیکن اب مجھے اس کا یقین ہو چکا ہے۔”
کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ پھر زارا اچانک اٹھ کھڑی ہوئی۔
“میں کچھ اور برداشت نہیں کر سکتی، زہرا۔ میں صرف انتظار نہیں کروں گی۔ میں اسے ڈھونڈوں گی، اُس سے ملوں گی، اور اسے بتاؤں گی کہ… اب میں اس کے بغیر نہیں جی سکتی۔”
زہرا نے حیرت سے پوچھا، “لیکن آپ کو کیسے پتہ چلے گا وہ کہاں ہے؟”
زارا نے آسمان کی طرف دیکھا، جیسے کسی اشارے کی منتظر ہو۔
“کبھی کبھی دل خود راستہ بتاتا ہے، زہرا۔ اور میرا دل مجھے کہہ رہا ہے کہ وہ اب بدل چکا ہے… اور مجھے اس کے نئے روپ کو دیکھنا ہے۔”
اسی رات، زارا نے ایک خفیہ خط بادشاہ عزمیر کو لکھا۔
خط میں صرف ایک بات لکھی تھی:
“اگر وہ میرا مقدر ہے، تو مجھے اُس تک پہنچنے سے نہ روکیں۔ مجھے اسے پکارنے دیں، کیونکہ شاید وہ آواز صرف میرے دل سے سن سکے گا۔”
حتمی مراقبہ اور روحانی روشنی کا ظہور
پہاڑوں کے درمیان وہی وادی، جہاں خاموشی ہوا سے بھی ہلکی اور گہری ہو چکی تھی۔ رات کی تاریکی چاندنی سے روشن ہو رہی تھی، اور ایک مخصوص پتھر کے دائرے کے بیچ، ریحان مراقبہ کی گہری حالت میں تھا۔
اُس کی آنکھیں بند، سانسیں ہموار، اور پیشانی سے ہلکی ہلکی روشنی خارج ہو رہی تھی۔ پچھلے تین دنوں سے وہ نہ کچھ بولا تھا، نہ ہلا تھا—لیکن اس کے باطن میں ایک طوفان برپا تھا۔
آج وہ لمحہ تھا، جس کے لیے بزرگ نے کہا تھا:
“جب تم اپنی روح کو مکمل طور پر تسلیم کر لو گے، تب وہ روشنی ظاہر ہو گی جو تمہیں باقی دنیا سے الگ کرے گی۔”
ریحان کی سانس آہستہ آہستہ مدھم ہونے لگی، اور اس کی دھڑکن ایک عجیب تال میں ڈھل گئی۔ اچانک، اُس کی پشت کے پیچھے سے روشنی کی ایک دیوار بلند ہوئی۔ وہ روشنی صرف روشنی نہ تھی، بلکہ اس میں صدیاں گُندھی ہوئی تھیں—علم، طاقت، تاریخ اور تقدیر۔
ریحان کے گرد ایک نوری دائرہ قائم ہوا، جس کے بیچ میں وہ خود محوِ مراقبہ رہا۔ اس دائرے میں کائناتی نشانیاں ظاہر ہونے لگیں—شیر کی آنکھ، عقاب کے پر، پانی کا بہاؤ، اور آگ کی چمک۔
پھر وہی بزرگ آواز آئی، جو اب اُس کے دل کے اندر سے گونج رہی تھی:
“اب تم نے تینوں پرتیں توڑ دی ہیں: خوف، غصہ، غرور۔ تم اب ایک ہو چکے ہو۔ مگر یاد رکھو، تمہاری طاقت کا راز صرف تم جانتے ہو۔ دنیا تمہیں جو بھی سمجھے، تمہیں خود جاننا ہو گا کہ تم کون ہو۔”
ریحان کی بند آنکھوں سے ایک آنسو بہا، مگر یہ کمزوری کا نہیں، تسلیم کا آنسو تھا۔
پھر اُس کے پورے جسم پر ایک ہلکی نیلی روشنی نمودار ہوئی—اُس کی روح کی پہچان، اُس کی باطنی طاقت کی علامت۔
چٹانوں پر بیٹھے پرندے خاموش ہو گئے، فضا میں لرزش پیدا ہوئی، اور وادی میں موجود تمام توانائی ایک مرکز کی طرف کھنچنے لگی: ریحان۔
چند لمحے بعد، روشنی دھیرے دھیرے مدھم ہونے لگی۔ مراقبہ ختم ہوا، مگر ریحان وہ انسان نہ رہا جو اس دائرے میں داخل ہوا تھا۔
اس نے آنکھیں کھولیں۔ نگاہوں میں سکون، مگر اندر ایک جنگ جاری تھی۔ وہ جان چکا تھا کہ اُس کی طاقت جاگ چکی ہے—ایسی طاقت جس کا کوئی مقابلہ نہیں، مگر وہ اب بھی خاموش رکھنی ہے… دنیا سے، زارا سے، بادشاہت سے۔
“اب میں تیار ہوں… لیکن میرے راستے میں جو آئے گا، اُسے میرے سائے سے بھی خوف محسوس ہو گا۔”
اُس نے ہاتھ بڑھا کر پتھر کو چھوا، اور پتھر پر اُس کی انگلیوں سے وہی نشان اُبھرا—شاہی خاندان کا نشان… مگر اُس کی اپنی روح کی روشنی میں نہایا ہوا۔
خاموش واپسی اور سائے میں چھپی طاقت
صبح کی روشنی پہاڑوں کے درمیان آہستہ آہستہ اُتر رہی تھی۔ ہوا میں خنکی تھی، اور وادی میں ایک عجب خاموشی۔ ریحان اپنی مراقبے کی جگہ سے اٹھ چکا تھا، لباس خاک آلود، بال بکھرے، اور آنکھوں میں وہ سکون جو کسی جنگجو کو فتح کے بعد حاصل ہوتا ہے۔
اُس نے اپنے ارد گرد دیکھا۔ وہ مقام جہاں اس نے خود کو پہچانا، وہ طاقت جس کا اُس نے خواب میں تصور کیا تھا، اب اس کی رگوں میں گردش کر رہی تھی۔ لیکن اس طاقت کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ… یہ صرف اُسے معلوم تھی۔
وہ آہستہ آہستہ پہاڑی راستے سے نیچے اترنے لگا۔ ہر قدم مضبوط، ہلکا، اور ناپ تول کر رکھا گیا۔ راستے میں اس کی ملاقات اُس ہی پرندے سے ہوئی جو اکثر اس کے ارد گرد منڈلاتا رہا تھا—ایک سفید چیل، جو اکثر خوابوں میں نظر آتی تھی۔ آج وہ حقیقت میں ریحان کے سامنے بیٹھی تھی۔
ریحان نے اسے دیکھا، اور دھیرے سے کہا، “تم ہمیشہ میرے ساتھ تھے، نا؟”
چیل نے جیسے اثبات میں سر ہلایا، اور پھر بلند پرواز کر گئی۔ ریحان نے ایک آخری نظر پہاڑوں پر ڈالی، اور دل میں کہا:
“یہ پہاڑ میرے اندر کی بلندیوں کا راستہ بنے۔ اب وقت ہے کہ میں نیچے جاؤں… لیکن خاموشی کے ساتھ۔”
جب وہ شہر کے قریب پہنچا، تو اپنی شکل و صورت کو معمولی ظاہر رکھنے کے لیے سادہ کپڑے پہنے، سر پر چادر لی، اور اپنے مخصوص انداز میں خود کو ایک عام مسافر کی صورت میں بدل لیا۔
راستے میں کچھ لوگوں نے اسے دیکھا، سلام کیا، مگر پہچان نہ سکے۔ کسی نے دل میں سوال کیا کہ یہ شخص کون ہے؟ مگر ریحان کا چہرہ ہر سوال کا جواب خود ہی دے دیتا—پُرسکون، پُراسرار، اور خاموش۔
اس کی طاقت جاگ چکی تھی، مگر وہ طاقت ایسی تھی جو دُھند میں لپٹی ہوئی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ دنیا اُسے جانے… اُس کے عمل سے، نہ کہ اُس کی آواز سے۔
اسی دوران، شہر میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔ کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ زارا دیوانی ہو گئی ہے، وہ کسی کو تلاش کر رہی ہے، کسی “ریحان” کو۔ اور کچھ کہہ رہے تھے کہ زارا اب صرف تاجر نہیں، وہ ایک جنگجو کی طرح بات کرتی ہے۔
ریحان نے یہ سب سُنا… لیکن خاموش رہا۔
دل میں ایک ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔
“محبت… وہی ہے جو وقت سے پہلے بدل دے۔ شاید زارا اب واقعی جان چکی ہے۔”
مگر وہ ابھی زارا سے نہیں ملے گا۔ اُس کا راستہ ابھی باقی ہے۔ اُس کی طاقت ابھی چھپی رہے گی۔ اور دشمن؟ وہ ابھی جاگے نہیں ہیں… لیکن جاگنے والے ہیں۔
ریحان نے آخری بار آسمان کی طرف دیکھا، اور دھیرے سے بولا:
“وقت آ رہا ہے۔”
دل کی پکار اور روحانی ہم آہنگی
محل کے اندر رات گہری ہو چکی تھی۔ ہر طرف خاموشی کا راج تھا، لیکن زارا کے دل میں شور تھا۔ وہ اپنے کمرے میں روشنی گل کیے، کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔ چاند کی روشنی اُس کے چہرے پر پڑ رہی تھی، مگر اس کی آنکھیں خوابوں سے بھری ہوئی تھیں۔
اُس کا دل مسلسل کسی انجانی سمت کی طرف کھنچ رہا تھا، جیسے کوئی بے آواز پکار اسے بلا رہی ہو۔
“میں نہیں جانتی وہ کہاں ہے… مگر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ مجھ سے بہت قریب ہے،” زارا نے خود سے کہا۔
پھر اُس نے اپنی آنکھیں بند کیں، اور آہستہ آہستہ سانس لینا شروع کیا، جیسے خود کو کسی غیر مرئی توانائی سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہو۔
اُس لمحے… ریحان شہر میں داخل ہو رہا تھا۔ سادہ لباس، دھیمے قدم، اور دل میں سکون۔ وہ جانتا تھا کہ زارا جاگ رہی ہوگی۔ نہ جانے کیسے، مگر اس کے دل میں بھی ایک روشنی سی ابھری، جیسے زارا کی پکار اُس کے دل سے ٹکرا گئی ہو۔
ایک لمحے کو دونوں کی روحوں کے درمیان ایک ان دیکھی لہر دوڑ گئی۔
زارا نے اپنی آنکھیں کھولیں، اور ایک گہری سانس لی۔
“وہ آ رہا ہے… میں جانتی ہوں، وہ قریب ہے۔”
اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، جیسے وہ کسی کی موجودگی کو محسوس کر رہی ہو۔ اُس نے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا… مگر وہاں کوئی نہ تھا۔
ریحان نے محل سے تھوڑے فاصلے پر ایک پہاڑی کے سائے میں کھڑے ہو کر آسمان کی طرف دیکھا، اور دھیرے سے مسکرایا۔
“تم نے محسوس کر لیا، زارا؟”
یہ پہلا موقع تھا جب دونوں کے دلوں نے ایک دوسرے کو بغیر لفظوں کے پکارا، اور اس پکار کا جواب بھی خاموشی میں ملا۔
زارا نے اپنی ڈائری کھولی، اور لکھا:
“کبھی کبھی، محبت وہ کہہ دیتی ہے جو زبان نہیں کہہ سکتی۔ اور میں نے آج اُس کی موجودگی محسوس کی ہے۔”
اب وہ کسی وضاحت کی محتاج نہ تھی۔ اب وہ کسی جواب کی تلاش میں نہ تھی۔
اب وہ جانتی تھی کہ وہ، اور صرف وہی، ریحان کی منزل ہے۔
ریحان نے آسمان کی طرف دیکھا، اور دل میں کہا:
“تم میری طاقت ہو، زارا۔ میرے سفر کی روشنی۔ مگر ابھی مجھے کچھ فیصلے لینے ہیں—جنہیں صرف میں ہی سمجھتا ہوں۔”
محل کے اندر اور باہر، دو دل، دو روحیں… ایک لمحے کے لیے ایک ہو گئیں۔
مگر ان کے راستے ابھی پوری طرح نہیں ملے تھے۔
خواب کی پکار اور فیصلہ کن لمحہ
رات کی گہرائی میں محل کے اندر زارا بےچینی سے کروٹیں بدل رہی تھی۔ وہ سونا چاہتی تھی مگر نیند اس سے روٹھ چکی تھی۔ آنکھیں بند کرتے ہی دل میں ایک ہی چہرہ ابھرتا—ریحان۔
آخرکار وہ تھک ہار کر اٹھ بیٹھی، اور خاموشی سے اپنے مطالعے کے کمرے میں چلی گئی۔ وہاں کی ایک کھڑکی براہ راست محل کی پچھلی وادی کی طرف کھلتی تھی۔ زارا وہیں بیٹھ گئی اور آسمان کی طرف دیکھنے لگی۔
اچانک… اُس کی پلکیں بھاری ہونے لگیں۔
نیند کی ہلکی گرفت میں اُس کی آنکھیں بند ہوئیں، اور وہ ایک غیر معمولی خواب میں داخل ہو گئی۔
خواب میں وہ ایک میدان میں کھڑی تھی۔ سامنے ریحان کھڑا تھا—مگر وہ ریحان نہیں جسے وہ جانتی تھی۔ وہ ایک مکمل بدلا ہوا وجود تھا۔ اُس کے گرد نیلی روشنی، جسم میں ایسی توانائی کہ زمین لرزنے لگے، اور نگاہیں ایسی کہ وقت بھی تھم جائے۔
زارا نے قدم بڑھائے، مگر جیسے ہی اُس کے قریب پہنچی، ریحان کی آواز آئی:
“ابھی نہیں، زارا۔ مجھے ایک اور دروازہ عبور کرنا ہے۔ اور تمہیں… میرا انتظار کرنا ہے۔”
زارا کی آنکھ کھل گئی۔ سانس تیز، دل کی دھڑکن بے قابو۔ مگر ایک بات واضح تھی:
ریحان واپس آ رہا ہے۔ لیکن وہ وہ نہیں ہوگا جو گیا تھا۔
اسی وقت، شہر کے مضافات میں، ریحان ایک پرانی جھونپڑی کے سامنے کھڑا تھا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں اس کی پرورش ہوئی تھی۔ اندر ایک ضعیف وجود ہلکی سانسوں کے ساتھ لیٹا تھا—بوڑھا وزیر، جس نے اسے بچایا، چھپایا، اور انسان بنایا۔
ریحان آہستہ سے اندر داخل ہوا۔ بوڑھے کی آنکھ کھلی، اور وہ مسکرایا۔
“آخر تم واپس آ ہی گئے۔”
ریحان نے جھک کر اُس کا ہاتھ تھاما۔
“میں جاگا ہوں، استاد۔ اب مجھے بتاؤ… وہ آخری بات جو تم نے کبھی نہیں کہی۔”
وزیر نے آہستہ سے سرہلایا۔ “وہ بات یہ ہے کہ تمہیں اب کسی کی رہنمائی نہیں چاہیے، ریحان۔ اب تم خود روشنی ہو، اب تم ہی رہبر ہو۔”
ریحان کی آنکھوں میں کچھ لرز گیا—شاید شکرگزاری، شاید جدائی کا دکھ۔ مگر اُس کی آواز مضبوط تھی:
“تو پھر اب میں اپنے راستے پر نکلوں گا۔ جو بھی میرے آگے آئے گا، سچائی کا سامنا کرے گا۔ اور جس نے میرے پیچھے سازش کی… وہ روشنی کی آنکھوں سے نہیں بچ سکے گا۔”
بوڑھے وزیر کی آنکھ بند ہو گئی، جیسے ایک امانت مکمل ہوئی ہو۔
صبح ہونے کو تھی۔
زارا خاموشی سے اپنی جگہ پر بیٹھی تھی، اور ریحان اپنی انگلیوں سے مٹی پر ایک نشان بنا رہا تھا—شاہی خون کا نشان۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ آگے کیا ہوگا؟
کیا ریحان پہلی بار کھل کر اپنی طاقت ظاہر کرے گا؟
کیا زارا کو دشمن کے اصل چہرے کا سامنا ہوگا؟
اور جب عشق اور جنگ آمنے سامنے آئیں گے، تو ریحان کس کا ساتھ دے گا—محبت یا تقدیر؟