Skip to content

The Ultimate Master Of Zehradis Urdu Version

  • by

دی الٹی میٹ ماسٹر آف زہراڈس

ساتویں قسط

چھپی ہوئی ضرب

زارا اپنے محل میں حساب و کتاب میں مصروف تھی۔ کئی ملاقاتیں طے پا چکی تھیں، نئی تجارتی ڈیلز تیار تھیں، اور کاغذات کی ترتیب و تکمیل میں وہ گم تھی۔ ہر چیز معمول کے مطابق لگ رہی تھی، مگر فضا میں کچھ غیر محسوس سا بوجھ تھا۔

ایک لمحے کو وہ رکی، جیسے کسی انجانی چیز نے اس کے گرد چکر لگایا ہو۔ کمرے کی لائٹس مدھم ہوئیں، اور ایک خنک جھونکا، بغیر دروازے یا کھڑکی کے، اندر داخل ہوا۔ زارا نے چونک کر اردگرد دیکھا، مگر کوئی موجود نہ تھا۔

اس نے دوبارہ قلم اٹھایا، مگر ہاتھ کانپ گیا۔ اس کی کلائی پر جیسے کسی نے برف جیسی انگلی رکھی ہو۔ اس نے جلدی سے خود کو سنبھالا، مگر دماغ میں گونجنے والی آواز نے سب کچھ بھلا دیا — ایک ایسی آواز جو الفاظ میں نہیں تھی، بلکہ کسی غیر مرئی طاقت کا پیغام تھی۔

اگلے ہی لمحے، زارا کا جسم بے اختیار ہوا۔ آنکھوں کے سامنے دھند چھا گئی، سانس لینے میں دقت ہونے لگی۔ وہ گھبرا کر اٹھنا چاہتی تھی، لیکن پاؤں زمین سے چپک گئے۔ بدن اکڑ گیا جیسے کسی نے گرفت میں لے لیا ہو۔

پھر… سب کچھ ساکت ہو گیا۔

ملازمین جب کمرے میں داخل ہوئے، تو زارا زمین پر نیم بے ہوشی کی حالت میں موجود تھی۔ نہ وہ مکمل بے ہوش تھی، نہ ہوش میں۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں، مگر ان میں زندگی کی روشنی دھندلا چکی تھی۔

کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ طبیب بلایا گیا، مگر زارا کے جسم پر نہ زخم تھا، نہ بخار، نہ کوئی ظاہری علامت۔ صرف اس کی آنکھیں… جیسے وہ کسی اور جہان کو دیکھ رہی ہوں۔

محل کی فضا میں ایک عجیب سا سکوت چھا گیا۔
ایک ایسا لمحہ… جہاں سب کچھ بظاہر ٹھیک، مگر اندر سے ٹوٹتا ہوا تھا۔

بےچینی کی لہر

شہر کی فضا غیر معمولی طور پر پرسکون تھی — جیسے کوئی بڑا طوفان آنے سے پہلے ہر شے خاموش کھڑی ہو۔ ریحان اُس صبح سادہ لباس میں، عام لوگوں کے درمیان چپ چاپ شہر کی گلیوں سے گزر رہا تھا۔ اُس کے چہرے پر وہی مانوس خاموشی، آنکھوں میں گہرائی، اور قدموں میں وہ مخصوص ٹھہراؤ تھا .

جیسے وہ نادیدہ سمت میں کسی نامعلوم منزل کی طرف بڑھ رہا ہو۔

مگر آج دل میں بےچینی تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا کیوں، مگر کچھ ایسا تھا جو اُسے روک نہیں رہا تھا، بلکہ کھینچ رہا تھا۔ بازار کے شور میں بھی اُسے زارا کی موجودگی محسوس ہو رہی تھی — حالانکہ عقل کہہ رہی تھی کہ یہ محض وہم ہے۔

اسی اثنا میں، ایک چھوٹا بچہ جس کے ہاتھ سے مٹی کے کھلونے گر گئے تھے، روتا ہوا اُس کے قریب آیا۔ ریحان نے جھک کر کھلونے اُٹھائے، اور اُس کے سر پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔

جیسے ہی اُس کا ہاتھ بچے کے سر پر آیا، ایک جھماکے کی طرح اُس کے ذہن میں زارا کا چہرہ ابھرا… ساکت، خاموش، اور بے رنگ۔

پھر ایک سیاہ لہر اُس کے اردگرد لپٹنے لگی، جیسے کسی ان دیکھے وجود نے اُس کی روح کو چھو لیا ہو۔

ریحان نے جھٹکے سے آنکھیں بند کیں، اور دل پر ہاتھ رکھا۔ سانس رکی، پھر گہرائی سے نکلی۔

“یہ خواب نہیں تھا… یہ زارا کی روح کی پکار تھی۔”

اب وہ لمحہ نہیں تھا کہ وہ سوچے۔
وہ فوراً تیز قدموں سے زارا کے محل کی طرف روانہ ہو گیا۔

اب اُس کی آنکھوں میں خاموشی نہیں، بلکہ پریشانی تھی ایک ایسی بےچینی، جو صرف اُسی کو محسوس ہو سکتی تھی جس کا دل کسی اور کے لیے دھڑک رہا ہو۔

راستے میں گزرنے والے اُسے حیرت سے دیکھتے رہے،
کیونکہ جو شخص ہمیشہ نظر سے بچ کر چلتا تھا،
آج وہ ہوا سے بھی تیز دوڑ رہا تھا۔

اُسے کچھ اور جاننے کی ضرورت نہیں تھی
بس یہ یقین کہ زارا خطرے میں ہے، اور وقت کم ہے۔

مسِ خاموشی اور روح کی صدا
صبح ہو چکی تھی، سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ مگر ریحان کے اندر جیسے رات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اُس کے قدم تیزی سے زارا کے محل کی طرف بڑھ رہے تھے، اور دل میں بے چینی کی ایک شدید لہر مچل رہی تھی۔

دروازے پر پہنچتے ہی خادمہ روتی ہوئی نظر آئی، مگر ریحان نے کچھ پوچھے بغیر اندر کا رخ کیا۔
زارا کا کمرہ آج ساکت نہیں، بلکہ بوجھل محسوس ہو رہا تھا۔ روشنی موجود تھی، مگر اندر ایک غیر مرئی اندھیرا چھپا ہوا تھا۔

زارا بستر پر لیٹی تھی۔ آنکھیں کھلی ہوئی، مگر بے جان۔ جیسے کوئی اور اُس کے اندر جا بسا ہو۔

ریحان نے اُس کا ہاتھ تھاما، تو ایک دم اُس کے جسم میں ٹھنڈک کی ایک غیر فطری لہر اتر گئی۔
“یہ… یہ تو کچھ پراسرار سا محسوس ہو رہا ہے۔”

“یہ بیماری نہیں ہو سکتی… اور نہ ہی کوئی عام اثر…”

وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا، زارا کی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔

“استاد… میری آواز سنو… میری زارا… مر رہی ہے…”

اگلے ہی لمحے، جیسے دنیا تھم گئی ہو۔
ریحان کی روح اُس روحانی خلا میں پہنچ گئی
جہاں صرف خواب اور حقیقت آپس میں گُھل جاتے ہیں۔

اُس کے سامنے دھند چھٹنے لگی، اور اُس کے مرشد، وہی بزرگ، ظاہر ہوئے —
چہرے پر سکون، آنکھوں میں صدیوں کا علم، اور آواز میں ایک گہری سنجیدگی۔

“تم نے آخرکار اُس مقام پر قدم رکھ دیا جہاں تم حقیقت کو پہچان سکتے ہو، ریحان۔
اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ زارا کی حالت جادو کا اثر ہے، یا کوئی اور پراسرار شے… یا محض کوئی بیماری۔
فیصلہ اب تمہارے شعور پر منحصر ہے۔”

ریحان نے سر ہلایا، جیسے اُس نے سب کچھ جان لیا ہو۔

بزرگ نے کہا:
“زارا کو بچانے کے لیے، تمہیں ایک ایسی چیز تلاش کرنی ہو گی
جو اس دنیا میں نایاب ہے —
ایسی چیز جس میں قدرت کی خاموش طاقت چھپی ہو،
اور جو صرف اُس کو ملتی ہے جس کے دل میں محبت اور قربانی ہو۔”

“کتنا وقت ہے میرے پاس؟” ریحان نے دھیمی آواز میں پوچھا۔

“صرف دس دن،” بزرگ نے نرمی سے جواب دیا۔
“اگر تم وقت سے پہلے واپس نہ آئے… تو تم زارا کو کبھی واپس نہیں لا سکو گے۔”

ریحان کی مٹھی بھنچ گئی، اور آنکھوں میں عزم ابھر آیا۔
“میں اُسے بچاؤں گا… ہر صورت میں۔

خاموش وعدہ
زارا کے کمرے میں مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ہر شے جیسے تھم چکی تھی، فضا میں ایک خاموش درد گھرا ہوا تھا۔ ریحان آہستہ آہستہ اندر داخل ہوا، اُس کے قدموں کی چاپ بھی جیسے وقت کا احترام کر رہی تھی۔

وہ زارا کے قریب آیا، اُسے گہری نظروں سے دیکھا۔
زارا کی کھلی آنکھیں اب بھی ہوش سے خالی تھیں، مگر ریحان کے لیے وہ ہمیشہ مکمل تھی — بے آواز مگر سب کچھ کہتی ہوئی۔

ریحان نے نرمی سے اُس کا ہاتھ تھاما، اور دھیرے سے کہا:

“تمہیں اندازہ بھی نہیں، تم میرے لیے کیا ہو…
مگر تم فکر مت کرو۔

میں تمہارے لیے علاج ضرور تلاش کر کے لاؤں گا…
چاہے وہ کتنی ہی دور اور چھپی ہوئی چیز کیوں نہ ہو۔
میرا وعدہ ہے، زارا۔”

اس نے آہستہ سے اُس کے ماتھے پر بوسہ دیا، جیسے اپنے دل کی قسم اُس کی روح پر رکھ رہا ہو۔

پھر وہ اٹھا، اور باہر دروازے پر کھڑے خادموں کی طرف بڑھا۔ اُن کے چہروں پر اضطراب تھا۔

ریحان نے جیب سے ایک چمکدار دھاتی ٹوکن نکالا — ایک ایسا ٹوکن جو ہلکی روشنی دیتا تھا۔

“یہ ٹوکن رکھ لو۔
اگر زارا کی حالت میں کوئی تبدیلی ہو،
یا کسی غیرمعمولی بات کا سامنا ہو،
تو اسے یوں دبا دینا…”
ریحان نے اُنہیں طریقہ دکھایا،
“میں جہاں بھی ہوں، مجھے خبر ہو جائے گی۔”

خادموں نے ادب سے سر ہلایا،
اور ٹوکن کو عزت سے تھام لیا۔

ریحان نے آخری بار زارا کے کمرے کی طرف دیکھا،
پھر پلٹا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

اُس کی چال میں اب وہی نرمی نہیں رہی تھی —
اب ہر قدم میں ایک تیاری تھی، ایک سمت تھی۔

تاکہ وہ سفر کی ابتدا کر سکے…
اس سفر کی، جو صرف جسم کا نہیں، بلکہ روح کا بھی امتحان تھا۔

روح کا اشارہ
ریحان آہستہ قدموں سے اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ دروازہ بند کرتے ہی ایک گہری خاموشی اس کے گرد لپٹ گئی — جیسے کائنات نے سانس روک لی ہو۔

کمرے کی دیواروں پر سادگی تھی، مگر ایک روحانی تاثیر بھی۔ دروازے کے ایک کونے پر اُس کا وہ پرانا کُشن رکھا تھا، جس پر وہ اکثر مراقبہ کرتا تھا۔ وہ کچھ لمحے کھڑا رہا، اور پھر آہستگی سے فرش پر بیٹھ گیا۔

اس نے آنکھیں بند کیں، اور دل میں اُبلتے خیالات کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔

“یہ سفر… کہاں سے شروع ہوگا؟
کون سا رستہ، کون سی زمین، اور کون سی شے؟”

چند لمحوں کے بعد، جب سانسیں ہم آہنگ ہو گئیں،
تو دل کی دھڑکنوں کے درمیان ایک نرمی اترنے لگی۔
روشنی کی ایک لکیر اُس کے تصور میں ابھری،
پھر وہ روشنی دھند میں بدل گئی،
اور اُس دھند کے بیچ ایک منظر نمودار ہونے لگا۔

وہ کسی پہاڑی وادی کا نظارہ تھا —
سبزیاں، پانی، اور درمیان میں ایک چمکدار روشنی والا پتھر
جو زمین سے ہلکا سا اوپر معلق تھا، اور اُس سے ایک پرسکون توانائی نکل رہی تھی۔

پھر ایک مانوس آواز ابھری… جیسے اُس کے اندر سے آئی ہو:
“یہ تمہاری پہلی منزل ہے۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ نایاب شے تمہاری منتظر ہے۔
اسے پانے کے لیے تمہیں صرف جسم نہیں، ارادے سے بھی گزرنا ہو گا۔
وقت کم ہے، ریحان…”

اچانک ریحان کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ سانس لیتا ہے جیسے گہرے پانی سے باہر نکلا ہو۔

اب اُسے معلوم ہو چکا تھا کہ سفر کہاں سے شروع کرنا ہے۔

اس نے اٹھ کر اپنے کاندھے پر ہلکا سا تھیلا لٹکایا،
جس میں وہ صرف ضروری چیزیں لے رہا تھا —
کپڑے نہیں، طاقت۔
راشن نہیں، یقین۔

دروازہ کھولتے ہوئے اُس نے آخری بار اپنے محل کی جانب دیکھا…
اور پھر بغیر پلٹے، اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔

شمن کی پرچھائیاں

شہر سے باہر، پہاڑی سلسلوں کی طرف جانے والا راستہ ریحان کے قدموں کے نیچے تھا۔ اردگرد سب کچھ پرسکون نظر آ رہا تھا، مگر ہوا میں ایک خاموش سی سرگوشی موجود تھی — جیسے کسی نے اس کے سفر کی خبر پھیلا دی ہو۔

ریحان نے اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا، لباس سادہ مگر مضبوط تھا۔ اس کے ہاتھ میں صرف ایک لکڑی کا عصا تھا، جو دیکھنے میں عام لگتا تھا، مگر درحقیقت اُس کی طاقت کو سنبھالنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ وہ تیز رفتاری سے چل رہا تھا، گویا ہر لمحہ اُس کے لیے قیمتی ہو۔

مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اُس کے قدموں کی آہٹ پہلے ہی کسی کے کانوں تک پہنچ چکی ہے۔

دوسری طرف، زہراڈس کے ہی اندر، ایک سادہ سا درباری کمرے میں دو افراد خاموشی سے بات کر رہے تھے۔ ایک نے سیاہ چغہ پہن رکھا تھا، اور دوسرا محل کے خاص خزانچی کے روپ میں برسوں سے چھپا ہوا جادوگر تھا۔

“تو وہ نکل چکا ہے؟” سیاہ پوش نے سرگوشی میں پوچھا۔

“ہاں، ریحان… وہ جس کا نام بھی کوئی نہیں لیتا… وہی۔” دوسرے نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔

“پھر اسے روکنا ہوگا۔” سیاہ پوش کی آواز میں زہر بھر گیا۔
“اگر وہ اُس جگہ تک پہنچ گیا… تو ہمارا تمام منصوبہ برباد ہو جائے گا۔”

“پریشان نہ ہوں۔ میں نے پہلے ہی اپنے آدمی اُس راستے پر روانہ کر دیے ہیں۔
اور… کچھ ایسے وجود بھی… جو انسان نہیں ہیں۔”

اسی لمحے، دور پہاڑی راستے پر، ریحان کو ایک جھماکا سا احساس ہوا۔

جیسے کوئی غیرمرئی آنکھیں اُسے دیکھ رہی ہوں۔
اُس نے رک کر اردگرد دیکھا، لیکن کچھ نظر نہ آیا۔

پھر اُس کے دل میں ایک خیال اُبھرا:
“یہ سفر آسان نہیں ہوگا… یہ صرف تلاش نہیں،
بلکہ جنگ ہے — اور شاید پہلا وار اب قریب ہے۔”

ریحان نے اپنی رفتار تیز کر دی،
اور اپنے عصا کو مضبوطی سے تھام لیا۔
اب نہ صرف وقت اس کے خلاف تھا…
بلکہ کچھ ایسے دشمن بھی… جنہیں وہ دیکھ نہیں سکتا تھا۔

پہلی رکاوٹ
پہاڑوں کے دامن میں دن کی روشنی مدھم ہو چکی تھی۔ درختوں کی چھاؤں اب گہری اور خاموش تھی، جیسے ہر شے کسی ان دیکھے لمحے کے انتظار میں ہو۔ ریحان ایک تنگ، سنسان راستے پر چل رہا تھا — وہی راستہ جسے عام لوگ نہ جانتے تھے اور نہ اپناتے۔

اچانک ہوا تھم گئی۔ فضا میں ایک عجیب جمود چھا گیا — جیسے وقت نے سانس روک لی ہو۔
ریحان ایک لمحے کو رُکا، اور اردگرد نظریں دوڑائیں۔

اسی اثنا میں، درختوں کے بیچ سے ایک سایہ نمودار ہوا — لمبا، کالی چادر میں لپٹا ہوا، چہرہ مکمل چھپا ہوا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک خم دار ہتھیار تھا، اور آنکھوں سے سرخ دھند نکل رہی تھی۔

“تمہارا آگے جانا منظور نہیں۔” سایہ گرجا۔
“مجھے تمہیں روکنے کا حکم ملا ہے۔
واپس جاؤ… یا مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔”

ریحان نے خاموشی سے اپنی گرفت عصا پر مضبوط کی، اور ایک قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
نہ غصہ، نہ خوف — صرف ارتکاز۔

سایہ آگے بڑھا، اور زمین پر قدم رکھتے ہی وہاں دراڑ پڑ گئی۔

ریحان نے آنکھیں بند کیں، اور اپنے اندر کی طاقت کو جمع کیا۔
سانس کی گہرائی سے اُس کی روح میں وہ توانائی بیدار ہوئی جو برسوں سے چھپی ہوئی تھی۔
ایک لمحے میں اُس کے عصا سے نیلی روشنی نکلی،
اور فضا میں جھٹکا سا پھیل گیا۔

پھر سایہ جھپٹا، اور دونوں کا زوردار تصادم ہوا۔

درخت ہلے، فضا میں چنگاریاں اٹھیں، اور زمین کی خاموشی ٹوٹ گئی۔

ریحان کا وار کاری تھا۔
سایہ زمین پر گرا، زخموں سے چور۔
وہ مرا نہیں، مگر دوبارہ اٹھنے کی سکت بھی باقی نہ رہی۔

زخمی ہو کر اُس نے غصے سے دھاڑا:
“یہ تمہاری پہلی جیت ہے… مگر یاد رکھنا،
اگلی بار تمہیں صرف میں نہیں، تمہاری تقدیر بھی آزمائے گی!”
پھر وہ پلٹا، اور اندھیرے میں غائب ہو گیا۔

ریحان نے ایک گہری سانس لی، اور دوبارہ اپنی راہ پر چل پڑا —
آنکھوں میں وہ چمک تھی، جو صرف ایک جنگجو کے ارادے میں جھلکتی ہے۔

یہ پہلا وار تھا، اور اصل راستہ اب کھلا تھا۔

وادیِ خاموشاں
چاندنی رات اب گہری ہو چکی تھی۔ ریحان خاموشی سے اس پرانی اور بھولی بسری وادی میں داخل ہو رہا تھا جسے لوگ “وادیِ خاموشاں” کہتے تھے۔ وہ جگہ، جو برسوں سے سنسان تھی — اور جہاں کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ “جو ایک بار اندر گیا، وہ کبھی پہلے جیسا واپس نہیں آیا۔”

یہاں ہوا بھی جیسے دب کر بہتی تھی، اور ہر درخت جیسے کوئی چھپا ہوا راز ہو۔ زمین کھردری تھی، اور جگہ جگہ ایسے نشان تھے جیسے پرانے زمانے کے کوئی کلمات یا طلسماتی نقوش پتھروں میں جذب ہو چکے ہوں۔

ریحان نے اپنی رفتار کم کی، اور اردگرد کا جائزہ لینے لگا۔

“یہ وہ جگہ ہے… جو مجھے دکھائی گئی تھی۔ مگر اصل راز ابھی کہیں چھپا ہے۔”

چند قدم آگے بڑھتے ہی، زمین پر کچھ عجیب نقوش نظر آئے —
کسی گول دائرے میں کچھ نشان جو وقت کے ساتھ مدھم ہو چکے تھے،
مگر ان میں اب بھی کچھ باقی تھا — جیسے وہ کسی طاقت کی بازگشت ہوں۔

ریحان جھک کر اُنہیں دیکھنے لگا،
کہ اچانک ہوا تیز ہو گئی — جیسے کسی نے اُس کے وجود کو محسوس کر لیا ہو۔

پھر، وادی کے ایک طرف موجود درخت کی جڑوں سے دو سایے ابھرے —
ساکت، بے زبان، اور غیر انسانی۔

اُن کی آنکھیں نہیں تھیں، مگر وہ سیدھا ریحان کی طرف دیکھ رہے تھے۔

“تم کیوں آئے ہو؟”
یہ سوال لفظوں میں نہیں،
بلکہ ریحان کے ذہن میں گونجا — جیسے کسی نے براہِ راست اس کی روح سے بات کی ہو۔

ریحان پیچھے نہیں ہٹا، بلکہ ایک قدم آگے بڑھا۔

“میں اُس شے کی تلاش میں ہوں… جو چھپی ہے، مگر میری منتظر ہے۔”
اُس نے آہستہ سے کہا، جیسے خود کائنات سے مخاطب ہو۔

وہ مخلوق بظاہر کوئی حملہ نہیں کر رہی تھی، مگر اُس کی موجودگی خود ایک رکاوٹ تھی۔
ریحان نے اپنے عصا کو زمین پر ٹکایا، اور سانس روک کر سوچا:
“یہ پہلی آزمائش ہے… شاید یہاں سے گزرنا، تلاش کا پہلا دروازہ ہو۔”

مگر اُس نے کوئی طاقت استعمال نہ کی۔
نہ وار کیا، نہ روشنی جگائی۔

بس، خاموشی سے اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا رہا۔

چند لمحوں بعد، وہ سایے دھیرے دھیرے پیچھے ہٹنے لگے،
اور فضا میں سرگوشی ہوئی:
“ابھی تم تیار ہو… مگر مکمل نہیں۔
راستہ لمبا ہے، مسافر!”

ریحان نے سر جھکا کر تسلیم کیا،
اور آگے کی طرف بڑھ گیا —
کیونکہ وہ جانتا تھا،
یہ صرف آغاز ہے… اور اصل چیز ابھی کہیں دور چھپی ہے۔

شب کا سایہ، دل کی روشنی
ریحان وادیِ خاموشاں سے نکل کر ایک تنگ اور پر اسرار راستے پر بڑھ رہا تھا۔
رات کی تاریکی گہری ہو چکی تھی، اور دھند ہر چیز کو آہستہ آہستہ نگل رہی تھی۔
درختوں کی لمبی قطاریں، خاموش ہواؤں کے ساتھ، کچھ چھپا سا احساس دے رہی تھیں۔

کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد، ریحان ایک چھوٹی سی پہاڑی پر پہنچا،
جہاں ایک پرانا پتھریلا مینار کھڑا تھا۔
مینار کے قریب ایک خشک کنواں تھا، اور اس کے کنارے پر ایک جملہ کھُدا ہوا تھا:

“جو اپنے دل سے دیکھے، وہی اصل راستہ پائے۔”

ریحان کچھ دیر خاموشی سے اُس جملے کو دیکھتا رہا،
پھر اُس کے دل میں ایک خفیف سی بے چینی ابھری —
جیسے کسی نے اُس کے دل کے تار چھیڑ دیے ہوں۔

زارا کا خیال ایک لمحے کو اُس کی سانس روک دیتا ہے۔
اُس نے کنویں کے پاس بیٹھ کر آنکھیں بند کیں،
اور مراقبے میں بیٹھ گیا —
دل، خیال اور ارادے کو ایک سمت میں مرکوز کرتے ہوئے۔

چند لمحوں بعد، جیسے زمین کے اندر سے کوئی صدا آئی ہو،
اس نے آنکھیں کھولیں اور محسوس کیا کہ کنویں کے دوسری طرف
ایک نیلا پتھر ہلکی سی روشنی دے رہا تھا۔

وہ آہستہ آہستہ اُس کے قریب گیا۔
پتھر پر درخت کی جڑ جیسا ایک نشان بنا تھا —
نہایت باریک، جیسے قدرت نے خود تراشا ہو۔

ریحان نے وہ نشان چھوا،
تو زمین نے ہلکی سی لرزش کی،
اور اُس کے قدموں کے نیچے ایک چھوٹا، گول سا دروازہ نمودار ہوا —
جو زمین کے اندر جانے والا ایک راستہ تھا۔

ریحان نے چند لمحے خاموشی سے اُسے دیکھا،
پھر آہستہ سے سر ہلایا:

“لگتا ہے… مجھے یہی سے جانا ہو گا۔”

بغیر کسی ہچکچاہٹ کے،
اُس نے عصا تھاما،
اور خاموشی سے اُس دروازے میں داخل ہو گیا

اندھیرے کے پیچھے کیا ہے؟

زیرِ زمین راستہ تنگ، نم اور اندھیرے سے بھرا ہوا تھا۔
ریحان احتیاط سے ہر قدم رکھ رہا تھا۔
اس کا عصا اب روشنی دے رہا تھا — بس اتنی، جتنی راستہ دیکھنے کے لیے کافی ہو…
مگر اندھیرے میں چھپی دیواروں پر کچھ تھا…
تحریریں… نشان… اور کچھ ایسی زبان جو اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

فضا میں ایک عجیب سی نمی تھی، جیسے سانس لینا بھی بوجھ بن رہا ہو۔

چند قدم بعد، راستہ ایک کشادہ ہال میں کھل گیا۔

یہ ہال کسی محل کا پرانا حصہ لگتا تھا،
مگر مکمل طور پر زمین میں دفن —
اوپر بلند چھت، اور اردگرد سنگِ مرمر کی بنی ستونوں کی قطاریں۔

ریحان نے ایک لمحے کے لیے حیرت سے اردگرد دیکھا —
“یہ جگہ…؟” اُس کے لبوں سے بے اختیار نکلا۔

پھر اُس کے قدم ایک ستون کے پاس رک گئے،
جہاں ایک اور پتھر چمک رہا تھا —
مگر اس بار روشنی نیلی نہیں،
بلکہ سرخ تھی۔

ریحان جیسے ہی اس کے قریب گیا،
پتھر نے خودبخود آواز پیدا کی —
نہ انسانی، نہ جادوی…
بلکہ جیسے کسی پرانی یاد نے خود کو جگا لیا ہو۔

اچانک، ستونوں کے درمیان سے سایہ سا حرکت کرنے لگا —
آہستہ آہستہ… مگر واضح۔

ریحان نے سانس روکی، اور عصا کو مضبوطی سے تھاما۔
مگر تب تک… ایک آواز گونج چکی تھی:

“تو آخر تم یہاں تک آ ہی گئے…”

آواز دھیمی، مگر خطرناک تھی۔

ریحان نے پلٹ کر دیکھا —
ایک وجود سامنے آ چکا تھا، مگر روشنی ابھی اُس کے چہرے تک نہ پہنچی تھی۔

کون تھا وہ؟
کیا وہ دشمن تھا… یا کوئی ایسا، جسے ریحان جانتا بھی نہیں؟
کیا یہ مقام صرف ایک پرانی پناہ گاہ تھی — یا ایک پھندہ؟
اور اصل شے، جس کی اسے تلاش تھی… کیا وہ اب قریب ہے — یا مزید دور؟

اس قسط میں بس اتنا ہی۔

Previous Episode Next Episode

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *