دی الٹی میٹ ماسٹر آف زہراڈس
بیداری کے بعد
کمرے کی فضا میں سکون تھا — مگر وہ عام سکون نہیں، بلکہ ایسا جو کسی طوفان سے پہلے چھا جائے۔
زارا اب آنکھیں کھول چکی تھی۔ اُس کے چہرے پر تھکن باقی تھی، مگر اندر سے ایک نئی توانائی اُبھر رہی تھی۔
ریحان اُس کے پاس بیٹھا خاموشی سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں وہ سکون نہیں تھا جو صرف ایک فتح کے بعد آتا ہے — بلکہ وہ اضطراب تھا، جو ایک نئے معرکے کی پیش گوئی کرتا ہے۔
زارا کی پلکیں جھپکیں، اور اُس نے آہستہ سے پوچھا:
“ریحان… کیا واقعی تم تھے…؟ یا میں کوئی خواب دیکھ رہی تھی؟”
ریحان نے نرمی سے اُس کا ہاتھ تھاما، اور دھیمی آواز میں بولا:
“اگر خواب تھا… تو تمہیں اُس نے زندہ کیا۔
اور اگر حقیقت ہے… تو یہ ابھی ختم نہیں ہوئی۔”
زارا نے گہری سانس لی۔
“مجھے کچھ عجیب خواب آئے… جیسے کسی نے میری روح کو پکڑ کر رکھا ہو، مگر کوئی روشنی اُسے چھوتی رہی — وہ روشنی تمہاری تھی، ریحان؟”
ریحان نے مسکرا کر سر ہلایا۔
“نہیں… وہ تمہاری اپنی روشنی تھی، میں صرف اُسے جگانے آیا تھا۔”
اسی لمحے، کمرے کے باہر کی فضا میں ایک عجیب سی توانائی پھیلنے لگی۔
ہوا کا رخ بدلا، دروازے کی لکڑی ہلکی سی کپکپائی، اور زارا کے سینے پر رکھا پھول — جو اب بجھ چکا تھا — اُس میں ایک آخری نیلی چمک ابھری… اور پھر مکمل خاموشی چھا گئی۔
ریحان فوراً اُٹھا، اور آہستہ سے دروازے کی طرف بڑھا۔
جیسے کوئی ان دیکھے وجود کو محسوس کر رہا ہو۔
دروازے کے باہر — محل کے راہداری میں — دیوار پر ایک باریک نشان اُبھر آیا تھا۔
ایک چھوٹا سا دائرہ، جس کے درمیان ایک لکیریں سی ہل رہی تھیں — جیسے کسی قدیم روحانی نظام کا نشان ہو۔
ریحان نے آنکھیں نیم وا کیں… اور زیرِ لب کچھ پڑھا۔
ہوا تھم گئی، اور نشان مٹ گیا — لیکن فضا میں جو توانائی پھیل چکی تھی، وہ ایک نئی حقیقت کی پیش خیمہ تھی۔
ریحان نے پیچھے پلٹ کر زارا کو دیکھا۔
“اب تمہیں آرام کی ضرورت ہے… اور مجھے… اُس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہے، جو دروازے کے پیچھے کھڑا ہے۔”
زارا نے اُس کی طرف دیکھا — اور صرف اتنا کہا:
“احتیاط سے جانا… کیونکہ میں اب تمہیں دوبارہ کھونا نہیں چاہتی۔”
ریحان نے ہلکی سی مسکراہٹ دی، پھر اپنی چادر لپیٹی، عصا ہاتھ میں لیا… اور راہداری میں قدم رکھ دیا۔
روشنی کم تھی… مگر ریحان کی آنکھوں میں آگ جل رہی تھی۔
سرگوشیوں کے نشان
محل کی راہداریوں میں خاموشی کی ایک ایسی تہہ بچھ چکی تھی، جسے صرف وہی محسوس کر سکتا تھا جو سکوت کے اندر کی سرگوشی سننے کا ہنر رکھتا ہو۔
ریحان آہستہ قدموں سے شمالی برآمدے کی طرف بڑھ رہا تھا — وہی جگہ جہاں پچھلی رات ایک نامعلوم نشان ملا تھا۔
راستے میں در و دیوار، ستون اور پردے… سب کچھ عام لگتا تھا، مگر ریحان کی آنکھوں میں کوئی اور ہی منظر جھلک رہا تھا۔
ایک خادم، جو راہداری میں پہرہ دے رہا تھا، ریحان کو دیکھتے ہی سیدھا کھڑا ہو گیا۔
“حضور… نشان اب بھی وہیں ہے۔ مگر… اُس کے پاس جانے والا ہر سپاہی بیمار ہونے لگا۔ کسی کو سانس لینے میں دشواری ہوئی، کسی کو نظر کم ہونے لگی۔”
ریحان نے بس سر ہلایا، اور چلتا رہا۔
چند قدم آگے جا کر وہ برآمدے کے ایک مخصوص کونے پر رکا۔ وہاں، ایک ستون کے عقب میں — ہلکی سی دراڑ کے اندر — وہی دھندلا سا طلسماتی نشان موجود تھا۔
ریحان نے جھک کر اُسے دیکھا۔
نشان اب بھی مدھم چمک رہا تھا — ایک دائرہ، جس کے اندر لکیریں کسی قدیم نقش کی مانند تھیں۔ مگر اُس سے جو توانائی نکل رہی تھی، وہ عام نہیں تھی۔
ریحان نے آنکھیں بند کیں، اور اپنی ہتھیلی اُس نشان کے قریب کی۔
تبھی فضا میں ایک زوردار سرگوشی گونجی —
نہ الفاظ واضح تھے، نہ آواز انسانی… مگر پیغام صاف تھا:
“ہم تمہیں دیکھ رہے ہیں…”
ریحان کی آنکھ کھلی، مگر وہ گھبرایا نہیں۔
اُس نے آہستہ سے اپنی مٹھی بند کی، جیسے اُس آواز کو اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔
“پہلا قدم تم نے بڑھایا… اب دوسرا میرا ہوگا۔”
اُسی لمحے ستون کی دراڑ سے ایک ہلکی سی نیلی روشنی نکلی اور ریحان کے گرد فضا میں تحلیل ہو گئی۔
ریحان نے جان لیا — یہ کسی عام دشمن کا وار نہیں تھا… یہ روحانی حملہ تھا۔ اور یہ وہ لوگ تھے جو لڑتے نہیں، صرف بُنتے ہیں — سازشوں کا جال۔
وہ پلٹا، قدم پیچھے نہ لیے — بلکہ اور آگے بڑھا۔
کیونکہ اب، اُس کے راستے کا پہلا دروازہ کھل چکا تھا… اور اُس کے اندر جاگنے والی طاقت — خواب نہیں، حقیقت بننے کو تیار تھی۔
قلعے کے پیچھے گرتی دیواریں
جیسے ہی ریحان نے روحانی نشان سے دور قدم بڑھائے، محل کے ایک دور گوشے میں ایک ایسی جگہ جاگ رہی تھی، جہاں برسوں سے خاموشی بسی ہوئی تھی۔ قلعے کے پچھواڑے ایک پرانا کمرہ تھا — بند، ترک شدہ، اور شاید سب کے حافظے سے بھی مٹا ہوا۔
مگر آج… اُس کے اندر ہلکی ہلکی دراڑیں نمودار ہو رہی تھیں۔
ایک بوڑھا خادم — جسے سب معمولی سمجھتے تھے، مگر درحقیقت وہ محل کی گہری نگہبانی میں اہم کردار رکھتا تھا — جلدی سے ریحان کے پاس پہنچا۔
“حضور… وہ جگہ… جو برسوں سے مقفل تھی… خود بخود کھلنے لگی ہے۔”
ریحان رکا نہیں۔ اُس کے چہرے پر حیرت نہ تھی، بلکہ ایک غیر متوقع سا سکون۔
“مجھے وہ جگہ دکھاؤ۔”
خادم اُسے محل کی پچھلی راہداریوں سے گزار کر ایک خفیہ دروازے تک لے گیا۔
دروازے کے گرد گھاس اُگی ہوئی تھی، دیوار پر کائی چمک رہی تھی۔ مگر اب وہاں موجود بند تالہ — آہستہ آہستہ بغیر کسی چھونے کے، زنگ زدہ آواز کے ساتھ کھل چکا تھا۔
ریحان نے دروازے کو آہستہ سے دھکیلا۔ اندر اندھیرا تھا، مگر اُس کی آنکھیں اجالے کی تلاش میں نہیں، حقیقت کی تلاش میں تھیں۔
جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا — ایک پرانا فرش، دیواروں پر خستہ تصاویر، اور درمیان میں ایک پتھر کی میز پر رکھی پرانی صندوق۔
صندوق پر وہی نشان نقش تھا جو چند لمحے پہلے دیوار میں دیکھا گیا تھا۔
ریحان آہستگی سے صندوق کے قریب گیا، اُس پر ہاتھ رکھا، اور کہا:
“پرانے راز… ہمیشہ وقت کے ساتھ نہیں، روح کی پکار سے جاگتے ہیں۔”
صندوق کی لکڑی خودبخود لرزنے لگی۔
اُس کے اندر سے ایک کاغذی طومار اور ایک تنگ چمکدار پٹّی نکلی — جیسے کسی نے برسوں پہلے یہ صرف اُسی لمحے کے لیے چھوڑا ہو۔
طومار کو کھولنے سے پہلے ریحان نے ایک جملہ کہا:
“اگر تم وہی ہو جس کی مجھے تلاش ہے… تو اب میں تمہیں پہچان چکا ہوں۔”
دور محل کی دیواروں میں خفیف سی لرزش ہوئی۔
شاید کچھ حقیقتیں… اب قید نہ رہنے والی تھیں۔
طومار کی زبان
کمرے میں خاموشی گہری ہوتی جا رہی تھی — جیسے وقت خود چند لمحوں کے لیے رُک گیا ہو۔
ریحان نے طومار کو دونوں ہاتھوں میں لیا، اور آہستہ آہستہ کھولا۔
طومار کی تحریر کوئی عام زبان میں نہیں تھی — اُس پر سنہری روشنائی میں ایسے حروف کندہ تھے جو کسی بھی موجودہ زبان سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، مگر… ریحان کی آنکھوں میں وہ الفاظ ایک الگ روشنی کے ساتھ صاف ہوتے جا رہے تھے۔
ہر لفظ، ہر لکیر، ریحان کے دل کے اندر اُتر رہی تھی — جیسے یہ تحریر اُس کے لیے ہی لکھی گئی ہو۔
تحریر کچھ یوں تھی:
“جب وقت کا اصل وار خاموشی سے اُبھرے گا،
تو وہی بچے گا جس کے اندر طوفان کو جذب کرنے کا ظرف ہو۔
تیرا وجود، صرف جسم نہیں — یہ اُس مٹی کی گواہی ہے
جسے صدیوں پہلے امانت دی گئی تھی۔
پہلا دروازہ کھل چکا ہے…
اب دوسرا دروازہ، خون سے نہیں…
روشنی سے کھلے گا۔”
ریحان نے طومار کو بند کیا، اور اُس کی پیشانی پر ہلکی سی نمی آ گئی۔
“تو یہ ہے اصل کھیل…” اُس نے آہستگی سے کہا۔
اُس نے جیسے ہی طومار کو دوبارہ صندوق میں رکھنے کے لیے آگے بڑھایا — کمرے کے فرش کے نیچے سے ایک ہلکی سی لرزش محسوس ہوئی۔
پھر… دیوار پر موجود ایک قدیم نشان آہستہ آہستہ روشن ہونے لگا۔
نشان کے وسط میں ایک چھوٹا سا دائرہ بنا، اور اُس میں ایک اور تحریر ابھری — صرف ایک جملہ:
“روشنی کا وار اندھیرے میں ہوتا ہے — تیار ہو جا!”
ریحان نے فوراً اپنی چادر درست کی، عصا ہاتھ میں لیا، اور قدم دروازے کی جانب بڑھا۔
اب وقت تھا… دوسرے دروازے کا۔
اور اُس کے سامنے جو آنے والا تھا — وہ صرف دشمن نہیں، ایک ایسا چیلنج تھا جس کا جواب صرف “روح” دے سکتی تھی… نہ کہ تلوار۔
روشنی کا دروازہ
محل کے پچھواڑے میں ایک پُرانی راہداری تھی — اتنی پُرانی کہ اب وہاں کوئی جاتا ہی نہیں تھا۔ مگر آج، ریحان کی نگاہیں اُسی طرف تھیں۔
طومار کی تحریر اُس کے دل میں گونج رہی تھی:
“دوسرا دروازہ، خون سے نہیں… روشنی سے کھلے گا۔”
ریحان خاموش قدموں سے اُس راہداری میں داخل ہوا۔ ہر قدم کے ساتھ، فضا کی توانائی میں تبدیلی آتی جا رہی تھی — جیسے کوئی نادیدہ دروازہ اُس کے قریب آ رہا ہو۔
دیواروں پر پرانے چراغوں کے نشان تھے، مگر سب بجھے ہوئے۔
ریحان نے اپنا عصا آہستگی سے دیوار کے ایک مخصوص حصے پر رکھا… تو اچانک ایک چراغ خود بخود روشن ہو گیا — نیلی روشنی سے، جو عام آگ کی مانند نہیں تھی۔
پھر دوسرا چراغ، پھر تیسرا…
راستہ اب روشنی سے اُجالا ہونے لگا، مگر یہ روشنی آنکھوں کے لیے نہیں — روح کے لیے تھی۔
آخرکار وہ ایک مقام پر پہنچا — جہاں دیوار کے وسط میں ایک نیا نشان نمودار ہو چکا تھا۔ وہی نشان جو طومار کے آخر میں ظاہر ہوا تھا:
“روشنی کا وار اندھیرے میں ہوتا ہے — تیار ہو جا!”
ریحان نے اپنی مٹھی بند کی، اور دل ہی دل میں کچھ پڑھا۔ دیوار ہلکی سی کانپی، اور اُس میں ایک دراڑ اُبھرنے لگی۔
پھر ایک دھیمی سی گھنٹی کی آواز آئی — جیسے کسی صدیوں پرانی مہر ٹوٹ گئی ہو۔
دیوار آہستہ آہستہ دو حصوں میں تقسیم ہوئی، اور اُس کے پیچھے ایک چمکتی ہوئی سیڑھیوں کی پگڈنڈی نظر آئی — نیلی روشنی میں نہائی ہوئی، بلکل خاموش، مگر بلاتی ہوئی۔
ریحان نے گہری سانس لی… اور پہلا قدم اندر رکھ دیا۔
پگڈنڈی پر قدم رکھتے ہی جیسے وقت تھم گیا ہو۔ فضا میں خوشبو بدل گئی — جیسے کسی اور جہان کا دروازہ کھلا ہو۔
پھر، ایک سرگوشی سنائی دی… مگر یہ کسی دشمن کی نہیں تھی۔
“اُس دن کے لیے تیار ہو جا… جب تیرا راز، تیرا ہتھیار بنے گا۔”
ریحان رُکا نہیں۔ کیونکہ اب، اُس کا سفر صرف ایک راستہ نہیں… ایک امتحان بن چکا تھا۔
دروازے کے پار
راہداری کی روشنی اب مدھم ہونے لگی تھی۔ وہ نیلی پگڈنڈی، جو چند لمحے پہلے بلاتی ہوئی لگ رہی تھی، اب ایسی محسوس ہو رہی تھی جیسے وہ ہر قدم پر ریحان کو تول رہی ہو — اس کی نیت، اس کا دل، اور اس کی روح۔
ریحان کا ہر قدم فضا میں ہلکی ارتعاش پیدا کر رہا تھا، اور اردگرد کی دیواروں سے اب سرگوشیوں کی مانند روحانی آوازیں سنائی دے رہی تھیں — کوئی زبان نہیں، صرف جذبے… جیسے پرانی روحیں، کسی وقت کی امانت اُسے سونپنے جا رہی ہوں۔
سیڑھیوں کے اختتام پر ایک محراب دار دروازہ نمودار ہوا — شفاف، مگر ناقابلِ عبور۔ اس پر کوئی تالا نہیں تھا، مگر دروازہ خود بند تھا… جیسے وہ خود ریحان سے کچھ چاہتا ہو۔
ریحان نے سامنے کھڑے ہو کر آہستہ سے کہا:
“اگر تم حقیقت کے دروازے ہو… تو میری روشنی کو پہچانو۔”
پھر اُس نے اپنی آنکھیں بند کیں، اور دونوں ہاتھ دل پر رکھ لیے۔
ایک لمحے کے اندر، اُس کے وجود سے نیلا نور خارج ہونے لگا۔ وہ نور، جو نہ تلوار سے نکلتا ہے، نہ ورد سے… بلکہ اس یقین سے جو خاموشی میں پلتا ہے۔
دروازے کی سطح پر ایک روشنی دوڑ گئی۔ وہ نشان، جو طومار میں ظاہر ہوا تھا — وہی نقش، اب دروازے کے بیچوں بیچ چمکنے لگا۔
پھر، ایک گونج سنائی دی — جیسے کسی اور جہان سے کسی نے دروازے کے پیچھے سے جواب دیا ہو:
“اے وہ جس کی روح بیدار ہے… کیا تُو قربانی کے بغیر حقیقت کو سہہ پائے گا؟”
ریحان نے آنکھیں کھولیں، اور دھیرے سے کہا:
“اگر سچائی کی قیمت درد ہے… تو میں درد سے انکار نہیں کرتا۔”
دروازہ آہستہ آہستہ شفاف ہونے لگا۔ اُس کے پیچھے اب ایک نئی دنیا کے آثار نظر آ رہے تھے — جہاں روشنی اور اندھیرا ایک ساتھ سانس لیتے تھے، جہاں وقت ایک لکیری رستہ نہیں، بلکہ دائرہ بن کر گردش کرتا ہے۔
ریحان نے قدم آگے بڑھایا — اور جیسے ہی اُس نے دروازے کو عبور کیا، ایک ہلکی سی روشنی اُس کے پیچھے لہرائی… اور دروازہ خودبخود بند ہو گیا۔
اب وہ ایک ایسی جگہ پہنچ چکا تھا، جو نہ محل کا حصہ تھی، نہ زمین کی حدود میں — یہ “درمیان” کی دنیا تھی۔
اور وہاں… ایک آواز گونجی:
“ریحان… اب کھیل شروع ہوا ہے۔”
درمیان کی دنیا
دروازہ بند ہو چکا تھا۔
ریحان اب جس مقام پر کھڑا تھا، وہ جگہ زمین جیسی نہ تھی — مگر آسمان بھی نہیں لگتی تھی۔ نہ وہاں زمین کی کشش محسوس ہو رہی تھی، نہ ہوا کی روانی۔ سب کچھ معلق تھا… خاموش، اور پھر بھی زندہ۔
اس دنیا میں ہر شے نیم روشن تھی — درخت تھے، مگر اُن کی شاخیں روشنی سے بنی ہوئی تھیں۔ پانی تھا، مگر وہ زمینی جھیلوں کی طرح نہیں بہتا تھا — بلکہ فضا میں تیرتا تھا۔ اور آسمان… آسمان تو جیسے عکس تھا کسی بہت پرانی، بھولی ہوئی سچائی کا۔
ریحان چند قدم آگے بڑھا۔ جیسے ہی اُس کا پاؤں اس زمین پر پڑا، نیچے سے ہلکی سی روشنی اُٹھی — جیسے اُس کی آمد کا پہلے سے انتظار ہو رہا ہو۔
پھر… ایک شعلہ فضا میں نمودار ہوا۔ نہ وہ آگ تھی، نہ نور — بلکہ ایک روحانی شعاع تھی۔ اُس کے اندر سے ایک نسوانی آواز گونجی:
“ریحان… تم آخرکار یہاں تک آ گئے۔ مگر آگے کا ہر قدم… تمہارے اندر کی سچائی پر منحصر ہوگا۔”
ریحان نے آنکھیں نیم وا کیں، اور آہستگی سے کہا:
“میں سچائی کی تلاش میں نہیں آیا… میں اُس کی قیمت دینے آیا ہوں۔”
وہ شعاع چند لمحے چمکی، پھر اُس کے گرد ایک دائرہ بنا اور غائب ہو گئی۔
پھر سامنے زمین پر ایک خاکہ بنا — ایک نشان، جیسے آزمائش کی مہر۔
اس نشان کے گرد ایک مجسمہ اُبھرا — بغیر چہرے کا، مگر ہاتھ میں تلوار تھی۔ مجسمہ اچانک حرکت میں آ گیا، اور تلوار فضا میں گھما کر بولا:
“اگر تم واقعی وہی ہو جسے کہا گیا تھا… تو اس وار کا جواب بغیر لڑے دینا ہوگا۔”
ریحان خاموش رہا۔ اُس نے تلوار نہ نکالی، نہ دفاع کیا۔ اُس نے صرف اپنی آنکھیں بند کیں… اور اپنے اندر کی روشنی کو جگایا۔
جیسے ہی مجسمہ وار کے لیے جھپٹا، ریحان نے اپنی مٹھی کھولی — اور اُس میں سے ایک نیلا ہالہ نکلا، جو وار کو چھوئے بغیر روک گیا۔
ایک لمحے میں مجسمہ رک گیا، اُس کی تلوار فضا میں تحلیل ہو گئی، اور وہ خود زمین میں جذب ہونے لگا۔
ایک اور آواز گونجی:
“تم نے پہلا امتحان جیت لیا… بغیر تلوار اٹھائے۔”
اب زمین پر ایک نئی لکیر بنی — ایک اور دروازے کی علامت۔ لیکن یہ دروازہ اس بار جسم سے نہیں، دل سے کھلنے والا تھا۔
ریحان نے گہری سانس لی، اور دل ہی دل میں کہا:
“میں تیار ہوں — اگر آزمائش ہی راستہ ہے، تو میں ہر دروازے سے گزر کر اپنی حقیقت تک پہنچوں گا۔”
آئینے کے اُس پار
فضا خاموش تھی، مگر ہر خاموشی کے اندر ایک صدا گونج رہی تھی — وہ صدا جو صرف وہی سن سکتا تھا جو اپنے اندر کی گہرائی میں اُتر چکا ہو۔
ریحان اب اُس نئی جگہ میں داخل ہو چکا تھا، جہاں وقت کی کوئی قید نہ تھی۔ سامنے، ایک روشنی سے گھرا دائرہ تھا — اور اُس دائرے کے بیچ میں ایک آئینہ کھڑا تھا۔ وہ آئینہ دھندلا نہیں تھا… مگر اُس میں کچھ بھی واضح دکھائی نہیں دیتا تھا۔
ریحان آہستہ آہستہ اُس آئینے کی طرف بڑھا۔ جیسے جیسے وہ قریب آیا، آئینے کی سطح ہلکی ہلکی لرزنے لگی۔ اور پھر، ایک لمحے میں اُس میں ایک عکس اُبھرا۔
مگر وہ عکس ریحان کا نہیں تھا — وہ ایک نوجوان تھا، جس کی آنکھوں میں آگ، اور چہرے پر وحشت تھی۔ وہ ریحان سے مشابہ ضرور تھا، مگر اُس میں ایک پرانا، بھیانک راز چھپا تھا۔
آئینے کے اندر سے آواز آئی:
“تم سمجھتے ہو تم نور ہو — مگر ہر نور کے پیچھے ایک سایہ ہوتا ہے۔ تم اُس سائے کو کب مانو گے؟”
ریحان نے خاموشی سے وہ عکس دیکھا، اور بولا:
“میں اُس سائے سے ڈرتا نہیں۔ مگر میں اُسے اپنے وجود کا حاکم بھی نہیں بننے دوں گا۔”
آئینہ ایک لمحے کو چمکا، اور پھر اُس کا عکس بدل گیا — اب وہاں ایک بچہ تھا… ریحان کا بچپن۔ وہ پہاڑوں میں تنہا بیٹھا تھا، بارش میں بھیگا ہوا، آنکھوں میں سوالات لیے۔
ریحان نے آہستہ سے اپنی مٹھی بند کی، اور کہا:
“میں اُسی بچے کا وعدہ ہوں — اور اُس وعدے کی تکمیل، میرے ہر امتحان سے بندھی ہے۔”
تبھی آئینے سے روشنی نکلنے لگی۔ آئینہ پگھلنے لگا… اور پھر اُس کی جگہ ایک پتھر کی تختی نمودار ہوئی، جس پر کندہ تھا:
“اپنے اندر کی سچائی کو قبول کرو — کیونکہ جس دن تم اپنے عکس کو اپناؤ گے، وہی دن تمہارے مکمل جاگنے کا دن ہوگا۔”
ریحان نے وہ تختی اُٹھائی، اور اُس پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ اُس کے گرد روشنی کا ہالہ بننے لگا — مگر وہ روشنی اس بار صرف روحانی نہ تھی… اُس میں جذبات، خوف، تلخ یادیں، اور عزم — سب شامل تھے۔
ریحان نے آہستہ سے کہا:
“میں خود کو قبول کرتا ہوں — اپنی روشنی کو بھی، اپنے اندھیرے کو بھی۔ کیونکہ میں مکمل تب ہی ہوں، جب دونوں میرے اندر ایک ہو جائیں۔”
اُس کے یہ الفاظ کہنے کے ساتھ ہی زمین ہلکی سی لرزنے لگی — اور سامنے ایک نئی سیڑھی اُبھری۔ وہ سیڑھی اُسے اُس دروازے کی طرف لے جانے والی تھی، جہاں… شاید اُس کا اصل نام لکھا تھا۔
حلف کی سیڑھیاں
آسمانی نیلی روشنی کے درمیان، وہ سیڑھی ریحان کے قدموں کے سامنے ظاہر ہو چکی تھی۔ یہ عام سیڑھیاں نہ تھیں — ہر قدم کے ساتھ جیسے زمین کی گہرائی سے کوئی روح بولتی ہو، اور آسمان سے کوئی وعدہ جواب دیتا ہو۔
ریحان نے اپنی چادر کو درست کیا، عصا مضبوطی سے تھاما، اور پہلا قدم رکھا۔
پہلے زینے پر پاؤں رکھتے ہی، ہوا کی لہر ایک دائرے میں گردش کرنے لگی۔ جیسے کسی قدیم دربار کی روحیں بیدار ہو گئی ہوں۔ دوسرے زینے پر قدم رکھتے ہی، آواز اُبھری:
“کیا تُو جانتا ہے، طاقت صرف اختیار نہیں — قربانی بھی ہے؟”
ریحان نے سر جھکایا:
“میں جانتا ہوں — اور تیار ہوں۔”
تیسرے زینے پر، روشنی ایک لمحے کو مدھم ہوئی، اور ایک عورت کی صدا گونجی — مدھم، مگر گہری:
“کیا تُو اُس کو بھول چکا ہے، جس نے تیرے لیے اپنا سب کچھ چھوڑا؟”
ریحان کی پلکیں لرزیں… زارا کا چہرہ اُس کے ذہن میں اُبھر آیا۔ اُس نے دھیرے سے کہا:
“نہیں… میں کسی کو نہیں بھولا — نہ زارا کو، نہ اپنے وعدے کو۔”
چوتھے زینے پر، دیواروں پر موجود شبیہیں متحرک ہو گئیں۔ جیسے تاریخ خود حرکت میں آ گئی ہو۔ ان میں زہراڈس کے قدیم محافظ، عظیم جنگجو، اور وہ ان دیکھے کردار تھے جو کبھی تاریخ میں لکھے ہی نہ گئے — مگر جن کی روحیں اب گواہ بن چکی تھیں۔
پانچویں زینے پر، روشنی کے اندر ایک تخت ظاہر ہوا۔ خالی، مگر عظیم۔ جیسے وہ اُسی کے لیے بنا ہو۔
ریحان رُک گیا۔ اُسے اندازہ تھا — یہ سیڑھیاں اُسے صرف ایک دروازے کی طرف نہیں، ایک نئی شناخت کی طرف لے جا رہی تھیں۔ وہ جسے دنیا ابھی تک ایک “گمنام محافظ” سمجھتی تھی… وہ درحقیقت زہراڈس کے تقدیر کا وہ کاتب بننے والا تھا، جسے تاریخ ہمیشہ کے لیے یاد رکھے گی۔
اُس نے آخری زینہ چڑھ کر دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھا، آنکھیں بند کیں… اور آہستہ سے ایک جملہ بولا:
“میں، زہراڈس کی مٹی کا بیٹا… آج اُس راز کو قبول کرتا ہوں، جو میرے خون میں چھپا ہے۔”
تبھی روشنی ایک دائرے میں تبدیل ہو گئی، اور فضا میں گونج اُبھری:
“پہلا حلف مکمل ہوا — اب تُو واپس پلٹ سکتا ہے… مگر اب تُو وہ نہیں رہا، جو آیا تھا۔”
ریحان کی آنکھ کھلی — اُس کے چہرے پر روشنی کا عکس تھا، اور اُس کی پیشانی پر اب ایک نیا نشان چمک رہا تھا۔
وہ پلٹا… سیڑھیوں سے نیچے اُترنے لگا۔ مگر اب اُس کے قدم ہلکے نہیں تھے — وہ ہر قدم کے ساتھ زمین پر اپنا حلف رقم کر رہا تھا۔
خاموشی کے بعد کی للکار
درمیان کی دنیا اب پیچھے رہ چکی تھی۔
ریحان محل کے اُس حصے میں واپس آ چکا تھا جہاں روشنی اور سائے دونوں اس کا انتظار کر رہے تھے۔ مگر وہ اب وہ شخص نہ رہا تھا جو یہاں گیا تھا — اُس کے وجود میں اب وہ سکوت تھا جو طوفان سے پہلے آتا ہے… اور وہ روشنی، جو صرف چنیدہ روحوں کو عطا ہوتی ہے۔
اُس کی پیشانی پر اب ایک نیا طلسماتی نشان چمک رہا تھا، اور اُس کی آنکھوں میں وہ چمک تھی جو کسی بھی دشمن کے دل میں لرزہ پیدا کر دے۔
کمرے میں زارا اب پرسکون نیند میں تھی — اور اُس کے آس پاس فضا میں وہی نیلا ہالہ پھر سے ظاہر ہو چکا تھا، مگر اس بار اس ہالے میں طاقت بھی تھی اور حفاظت بھی۔
ریحان آہستہ سے کھڑکی کی طرف بڑھا۔ اُس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ بادلوں کے درمیان ایک ہلکی سی روشنی اُبھری — وہی نشان، جو قلعے کی بیرونی دیوار پر پہلی بار اُبھرا تھا۔
ریحان نے آنکھیں بند کیں — اور اُس کے ذہن میں ایک نسوانی سرگوشی ابھری:
“ریحان… تم نے زارا کو بچا لیا… اب دیکھتے ہیں، خود کو کیسے بچاؤ گے۔”
یہ کوئی جسمانی موجودگی نہ تھی — بس ایک پرانا خیال، ایک اَن کہی للکار… جو فضا میں موجود رہی۔
ریحان نے آنکھیں کھولیں، اور دل میں کہا:
“میں تیار ہوں — تمہارے ہر سوال کے جواب کے لیے، ہر وار کے بدلے کے لیے۔”
پھر وہ مڑا، اور محل کی مرکزی راہداری کی طرف قدم بڑھا دیے۔
اب اُس کے وجود میں صرف سکوت نہ تھا — بلکہ ایک فیصلہ… کہ اگلی صبح، صرف صبح نہیں ہوگی… ایک نیا عہد ہوگی۔
اس قسط میں بس اتنا ہی۔
کیا آپ جانتے ہیں… کہ ریحان کے اگلے قدم پر کون سا راز اُس کا منتظر ہے؟
کیا محل کے اندر چھپی سچائیاں اُسے روک پائیں گی؟ یا باہر کے دشمن… اُسے للکارنے آئیں گے؟
Novel With Alam پر!جاننے کے لیے دیکھیے قسط نمبر 11 — صرف